مطالبۂ نفاذِشریعت،37 بینک اکاؤنٹ اور ملکی ہلچل

طارق احمدمرزا

شاعرکی مجلس میں کسی کی جوانی کی بات چھڑگئی تھی تو جاپہنچی تھی قیامت تک، لیکن اپنے ہاں جب بات چھڑی رانا ثناء اللہ صاحب کے استعفے کی تو جاپہنچی سات دن کے اندراندرنفاذشریعت کے مطالبے تک!۔

اس مطالبہ کے پہلے روز سے ہی ملک بھر میں ہر قسم کی غیر شرعی حرکات کا گویا ایک سیلاب ہی امڈ آیا جس کی تفصیلات مطالبہ کے بعد کے چھ دنوں کے اخبارات میں موجود ہیں۔ ابلیس نے اپنے چیلے چانٹوں ا ور نقیبوں کے ذریعہ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھر میں اعلان کروادیا کہ ساتھیوجو کچھ کرسکتے ہو ان چھ دنوں میں کرلو ، ساتویں دن کے بعد سے کچھ بھی نہ کرپاؤگے کیونکہ ملک میں شریعت نافذہو جائے گی،داتا دربار پہ لگتے دھرنے سے ہوشیار رہو۔

لیکن جس تیزی سے یہ صورتحال آگے کو بڑھتی نظر آئی اس سے کہیں زیادہ سرعت بلکہ عجلت کے ساتھ ایسے اینٹی کلائمکس پہ آکر ختم ہوگئی جس سے ہمیں بے ساختہ دوباتیں یادآگئیں۔پہلی تو’’ حضرت امیرِ شریعت ‘‘ عطاء اللہ شاہ بخاری کے دستِ راست’’ مفکرِ احرار‘‘چوہدری افضل حق کے بیان فرمودہ ایک حقیقت جس کے مطابق:۔

’’باسی کڑی کے ابال کی طرح ہم اٹھتے ہیں اور پیشاب کے جھاگ کی طرح ہم بیٹھ جاتے ہیں‘‘۔(زمزم، لاہور۔اشاعت 15؍جولائی 1941ء)۔

دوسری بات اس نوکر کی یادآئی جس نے ایک دن اپنے مالک سے گرجدار آواز میں مطالبہ کردیاکہ’’ میری تنخواہ میں اضافہ کیا جائے ورنہ۔۔۔‘‘ اور جب مالک نے پوچھا کہ ورنہ کیاتو بولا کہ ’’ورنہ اسی تنخواہ پہ گزارہ کرتا رہوں گا!‘‘۔
یہاں بھی کچھ ایساہی ہوا۔’’سات دن کے اندرشریعت نافذکر و ورنہ۔۔۔‘‘ورنہ کیا؟۔’’ورنہ پندرہ کے پندرہ استعفے واپس کردونگا اور دھرناورنا بھی ختم!‘‘۔

دھرنا ختم کرنے اورنفاذ شریعت کے لئے سات دن کاا لٹی میٹم واپس لینے کے اس فیصلہ کا جملہ عمائدین ’’کل مسالک ورلڈپاسبان ختم نبوت‘‘ نے بھرپورخیرمقدم کیا۔اس کے ساتھ پنجاب بھر کو بندکردینے کا خطرہ بھی ٹل گیا ۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ملک میں مچی ’’ہلچل‘‘ کی وجہ سے یہ مطالبات واپس لے لئے گئے ہیں۔ 

جہاں تک راقم کا دینیات کا واجبی اور بنیادی سا علم ہے اس کے مطابق توشریعت کا نفاذ ہر قسم کی ہلچل،بدامنی،بدانتظامی،نا انصافی وغیرہ کا خاتمہ کردیتا ہے جبکہ یہاں ملک بھر میں مچی ہلچل کو جواز بنا کر شریعت کے نفاذکے مطالبہ سے ہی دستبردارہونے کے اعلان کا خیرمقدم کیا جارہا ہے۔تو کیا خاکم بدہن یہ سب کچھ ڈرامہ تھا؟۔

سات دن پہلے سات دن کے اندراندرشریعت کا نفاذ کیوں ضروری سمجھا گیاتھا اور اب سات دن گزرجانے کے بعد شریعت کا نفاذ کیوں اتنا ضروری نہ رہا؟۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے آپ کو ایسی کون سی ’’یقین دہانی‘‘کروا دی جس کے بعدرانا ثناء اللہ کے استعفیٰ سمیت نفاذشریعت کا التویٰ تک آپ کو گواراہوگیا؟۔
اور پھرروزنامہ پاکستان کے ایک مبصر کے بقول شریعت کے نفاذکے لئے ہمہ وقت پندرہ عدداستعفے جیب میں ڈال کرلیے پھرنا۔اورشریعت کے نفاذ کے ساتھ ان پندرہ استعفوں کو نتھی کرنا ،ان کاباربار ذکر کر کے حکومت کو بلیک میل کرنا،کیا شریعت اس طرح سے نافذ کی یا کروائی جاتی ہے؟۔کیا ختم نبوت کا تحفظ العیاذ پندرہ استعفوں سے ہی وابستہ رہ گیاہے؟۔

یہی نہیں بلکہ ہمیں تو اس مبینہ دھمکی کی منطق بھی پلے نہیں پڑرہی کہ سات دن کے اندرشریعت کا نفاذنہ کیا گیا تو پورے پنجاب کو بند کردیا جائے گا۔آخرپنجاب ہی کو کیوں؟۔کیا ملک بھر میں شریعت کے نفاذ کی راہ میں پنجاب حائل ہے یا پاکستان محض پنجابستان بن کر رہ گیا ہے؟۔سندھ ،بلوچستان،خیبرپختونخواکابھی کوئی وجود ہے بھی یا نہیں ؟۔یا پھر آپ ان تینوں صوبوں میں شریعت کا نفاذضروری نہیں سمجھتے؟۔کیا پورے ملک کو وزیراعلیٰ پنجاب ہی چلا رہا ہے؟۔

پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ سات دن پہلے آپ پنجاب حکومت سے جس شریعت کے نفاذکا مطالبہ کر رہے تھے وہ شریعت تھی کون سی؟۔شیعہ یا سنی؟۔اگرشیعہ تو کون سی شیعہ ؟۔اثناٗ عشریہ ،جعفریہ یا اسماعیلیہ ، دواؤدی بوہرہ یا نزاریہ،امامیہ یا علویہ،دروزیہ یا زیدیہ شریعت؟۔

اگر سنی تو کیاوہابی شریعت مرادتھی؟۔ لیکن وہ تو کسی مزارپر دھرنا دینے تو کجا پکے مزارات کی تعمیراور ان میں انعقادِمجالس سماع ،رقص ودھمال اور اسی طرح پیری مریدی کوبدعت وکفرسمجھتی ہے؟۔اسی طرح سے جومزید فرقے ہیں مثلاًاہل قرآن، اہلحدیث، مالکی،حنبلی،شافعی،مودودی،پرویزی،چکڑالوی ،دیوبندی وغیرہ (جن میں سے ہر کسی کے خلاف دیگر ہر کسی نے خارج از اسلام ہونے کے فتوے دے رکھے ہیں) و ہ سب آپ کی اس مجوزہ شریعت میں کیامقام رکھتے ہیں؟۔

یہی نہیں بلکہ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا آپ کے محبوب خادم اسلام جنرل ضیاء الحق نے شریعت کا نفاذکر نہیں دیاتھا؟۔شرعی عدالتوں کا قیام،سرعام کوڑے مارنا،منہ کالا کرنا،قصاص دیت کا نظام،بلا سودبینکاری ،نظام قیام صلوٰۃ،نظام امربالمعروف و نہی عن المنکر،لازمی کٹوتی زکوٰۃ،احترام رمضان آرڈیننس،امتناع شراب نوشی قانون،قیام مجلس شوریٰ،ممبران شوریٰ کے تعلیم یافتہ اور صادق و امین ہونے کی پابندی، امتناع قادیانیت آرڈینینس،توہین مذہب اور توہین رسالت سے متعلق قوانین،اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام(جو بچیوں کی عصمت دری اور قتل کی روک تھام کی بجائے امریکی حکومت کو ’’بلیک فرائی ڈے‘‘ کا نام تبدیل کرنے کی تجاویزدینے پر انتہائی سنجیدگی سے غورغوص کرنے میں شبانہ روزمصروف ہے۔)،شناختی کارڈ پاسپورٹ میں مذہب کا خانہ،جداگانہ ووٹر لسٹیں اور انتخابات، کیا ان سب سے ملک عزیز میں نفاذشریعت ہو نہیں چکا؟۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رائج اور نافذمندرجہ بالا تمام اسلامی شرعی قوانین اور اصلاحات کے اوپر آپ کون سی شریعت سات دن کے اندراندرنافذکرنے کا مطالبہ کر رہے تھے؟۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ جب آپ خود اپنے ایک خطاب میں فرماچکے ہیں کہ جب کوئی بیعت شدہ مرید مرنے کے بعدقبرمیں اتاراجاتا ہے تونہ صرف یہ کہ اس کا پیراسے قبرمیں وصول کرتا ہے بلکہ قبرمیں سوال کرنے کے لئے جو دو فرشتے آتے ہیں ان کے سوالوں کے جوابات بھی مرید کی طرف سے اس کاپیر ہی دے دیتا ہے اور مرید کو اس سوال وجواب کی زحمت نہیں اٹھاناپڑتی ،تو پیر صاحب کی دی ہوئی اس بیمثال گارنٹی کے ہوتے ہوئے اس سارے ترددکی ضرورت ہی کیاتھی۔سیدھا سیدھا یہ مطالبہ کرتے کہ سارے پنجابی مسلمان آپ کی بیعت کرلیں ورنہ یہ رہے پندرہ استعفے۔۔۔

مجھے یقین ہے کہ اگروزیراعلیٰ پنجاب کے بھائی میاں نوازشریف ہنوزوزیراعظم ہوتے تو پھر آپ ان سے یہی مطالبہ کرتے ہوئے پورا ملک بندکروادینے کی دھمکی دے رہے ہوتے۔فی الحال تووہ خود اپنے دل ودماغ میں مچی ہلچل کو پورے ملک کی ہلچل قرار دے رہے ہیں۔

ہرقسم کی ہلچل کی تان ان کے ناہل قراردیئے جانے کے عدالتی فیصلے کا شاخسانہ قراردینے پہ آ کر ٹوٹتی ہے۔جیسا کہ کل ہی انہوں نے کہا کہ جب میں وزیر اعظم تھا توڈرون حملے بند ہوگئے،مجھے نکالاتوپھر شروع ہوگئے ہیں۔ ہم تو اتنا جانتے تھے کہ جب آپ وزیراعظم تھے توکم سن معصوم بچیوں اورجعلی پولیس مقابلوں میں مارے جانے والے بے گناہوں کے قاتل دندناتے پھر تے تھے۔آپ کو نکالا ہے تو ان کے قاتل پکڑے جانے لگ گئے ہیں ۔

ایک اورہلچل جو ان دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مچی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ میڈیاپہ دنیاپاگلوں کی طرح شورمچاتی ،غراتی ہوئی ایک ٹی وی اینکرکے خلاف اکٹھے ہوکر بول رہی ہے کہ لوجی اکاؤنٹ نمبر نہیں دے سکے،وفاقی وزیر اور دیگر اہم شخصیت کا نام نہیں بتا سکے وغیرہ۔بات یہ ہے کہ جب تقاریر میں یہ مثال دی جاتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرتا ہے تو اس کا ذمہ دارعمر ہی ہوگا۔یہاں توکتے نہیں بلکہ انسان ،وہ بھی معصوم کم سن بچیاں عصمت دری کا نشانہ بنائے جانے کے بعد موت کے گھاٹ اتاری جارہی ہیں تو اس کے ذمہ دارافراد کا نام کسی ٹی وی اینکرسے کیوں پوچھتے ہو۔

جب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں (جہاں جنرل ضیاء کے دور سے نظام مصطفےٰ ؐ نافذ ہے) اکثروبیشترحضرت عمرؓ کی مذکورہ بالا مثال دی جاتی ہے تو پھر ان کے اسوہ کواپناتے ہوئے ان تمام گھناؤنے واقعات کا ذمہ دار علاقہ کی پولیس،علاقہ کے ناظم،علاقہ کے ایم پی اے،علاقہ کے ایم این اے علاقہ کے وزرا ،علاقہ کے سربراہ اور دیگر’’اہم شخصیات‘‘ کوکیوں نہیں ٹھہراتے جن کی تعداد سینتیس توبن ہی جاتی ہے؟۔

مبینہ ملزم عمران علی نقشبندی کے نہیں تو علاقہ کے سینتیس ذمہ دار افرادکے سینتیس بینک اکاؤنٹ توضرور ہی ہونگے جن میں ماہ بماہ مبینہ طورپر حرام کی کمائی جمع ہوتی ہے کیونکہ اپنے فرائض منصبی کماحقہ ادا نہ کئے جائیں تو کمائی حرام کی اورلعنتی ہی ہوجاتی ہے۔

بالکل اسی طرح جس طرح مبینہ طورپرپارلیمنٹ کو لعنتی قراردینے والے اسی پارلیمنٹ سے کئی کئی لاکھ کی تنخواہ بدستورکمال ڈھٹائی سے وصول کئے جارہے ہیں۔

کیاملک میں مچی ان لعنتوں کی ہلچل کی وجہ سے نفاذ شریعت کا مطالبہ مؤخرکردیاگیاہے؟۔ اگریہ مبینہ ہلچل اتنی طاقتورہے تو پھر اس ہلچل کا حتمی علاج ہے کیا؟۔

One Comment