ریاست ہم سے کیا چاہتی ہے؟

حفیظ اللہ یاد

تقسیم برصغیر پاک وہند کے وقت جب اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے جارہا تھا تو اس وقت پشتونوں کا اخلاقی، سیاسی اور سماجی حق بنتا تھا کہ آپ ان سے را ئے لیتے اور اکثریت رائے کا احترام کرتے کہ آیا آپکو پاکستان کے ساتھ رہنا منظور ہے اگر نہیں تو آپ کیا چاہتے ہو مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔

تمیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو جب قائد اعظم محمد علی جناح کا وفادار ساتھی نواب محمد خان جوگیزئی نے میکموھن پارک موجودہ صادق شہید پارک کوئٹہ کے ایک اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کیا تو اجلاس کے شرکاء نے نامنظور نامنظور کے نعرے لگائے اور نواب صاحب نے مجبوراً وہ قرارداد سمیٹ کر باہر نکل آئے اور ہمیں وہ دن بھی یاد ہے کوئٹہ کے گورنمنٹ ہائی اسکول کے ہال میں ایک انگریز وفد کی صدارت میں اجلاس منعقد ہوا اور اس فرنگی نے کہا کہ عوام سے رائے ضرور لیاجائے گا تو فورا نواب صاحب اٹھے اور کہنے لگے کہ نہیں سر رائے ہم نے لے لی ہے وہ سب ہمارے رائے سے اتفاق رکھتے ہیں۔یہی عمل صوبہ سرحد کے پشتونوں کے ساتھ بھی ہوا جبکہ تقسیم ہند کے وقت پشتونوں میں ایک نعرہ مشہور تھا کہ

پشتانہ نہ پاکستان نہ ہندوستان خوشوی ۔ سوک چی پشتون وی ہغہ لوئی پشتونستان خوشوی

پاکستان بننے کے بعد باوجود اس کے کہ عبدالغفار خان (باچا خان) کے ساتھ دو لاکھ خدائی خدمتگار اور اس کے بیٹے عبدالغنی خان کے زیر قیادت پچاس ہزار پشتون زلمی کے نوجوان تھے ہم نے بغاوت کا راستہ نہیں اپنایا اور پاکستانی ریاست کے ساتھ ایک سوشل کنٹریکٹ پر دستخط کر کہ اس ریاست کو تسلیم کرلیا اور یہاں پر رہنے کے ساتھ ساتھ مکمل تعاون کرنے کا وعدہ بھی کیا اور آپ نے ہمارے ساتھ یہ عہد کیا کہ پاکستان میں کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں ہوگا بلکہ یہ پانچ مختلف قوموں کی فیڈریشن ہوگا اور یہاں کی حکمرانی عوام کی ہوگی مگر بد بختانہ وہ وعدے تھے محض وعدے۔

پاکستان اپنے پیدائش کے پہلے نازک سال سے گذر رہا تھا کہ اس کے بانی نے صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان کی حکومت گرا دی اور کشمیر کے مسلم لیگی قیوم خان کو نازل فرمایا۔ادھر سے باچا اور ڈاکٹر خان سمیت کئی ساتھیوں کو گرفتار کرکہ سلاخوں کے پیچھے دکھیل دیا۔جب ان کے حق میں ۱۲ اگست ۱۹۴۸کو عدم تشدد کے پیروکار خدائی خدمت گاروں کا پر امن جلوس نکلا آپ نے ان پر گولیاں برسائی اور چھ سو معصوم شہری شہید کیے اور سینکڑوں کارکنوں کو دریائے سندھ میں پھینک کر بہادیا۔اور یہ بھی تاریخ کا حصہ رہا کہ آپ نے شہیدوں کے وارثوں سے اپنی گولیوں کی رقم بھی وصول کی۔یہاں سے آپکا مارنے اور میرا مرنے کا نہ روکنے کے سلسلہ کا آغازہوا۔

پھر آپ نے میرے پشتون وجود کو جغرافیائی طور ریاست کے اندر چار مختلف حصوں میں تقسیم کیا جوکہ قدرتی طور پر پیوستہ ہے اور ون یونٹ کے بعد آپ نے بلوچ عوام کو الگ کو صوبہ دینے سے صاف انکار کردیا جس کیلئے پھر جنوبی پشتونخوا کے پشتون کو زبردستی قربانی کا بکرا بنا دیا گیا اور پشتون محکوم در محکوم ہوتے گئے۔

آپ کے ہر مارشل لاء میں پشتون ہی کا خون ندی نالیوں میں بہایا گیا اور آپ کے ہر آمر نے پشتونوں کو قید بامشقت سے نوازا۔یہاں تک کہ آپ نے برٹش بلوچستان کے بانی صحافت، استقلال اخبار کے مدیر بابائے پشتون عبدالصمد خان اچکزئی کو تیئیس سال قید کے بعد چھیاسٹھ سال کی عمر میں اپنے گھر میں دستی بموں سے شہید کردیا۔پھر بھی پشتون نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان مردہ باد۔آپ نے ڈالر کے لالچ میں ہر پشتون گھر سے ایک نوجوان کو جہاد کے نام پر اپنے آبائی ملک افغانستان بھیجا ۔آپ نے مذہب کے مقدس نام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے پسماندہ پشتونوں کے جذبات سے وہ کھیل کھیلا جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ ہمارے علماء کرام کا علم آپ اور آپکے ناپاک مقاصد کیلئے استعمال ہوا ہم یہ بھی دیکھتے رہے۔آپ نے ہر اس پشتون کا سر تن سے جدا کیا جو جھکنے سے نااشنا تھا، ہر وہ ہاتھ کندھے سے جدا کیا جو قلم پکڑنے اور چلانے میں ماہر تھا، ہر وہ زبان ہمیشہ کیلئے خاموش کردی جو بولنے اور سوال کرنے کا ہنر جانتی تھی۔پھر بھی ہمارے ہاں پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں اٹھا۔

آپ نے دنیا بھر کے دہشت گردوں بشمول آپ کے دوست چین کے باغیوں کو نہ صرف ہمارے قبائلی علاقے وسطی پشتونخوا (فاٹا) میں پناہ دی بلکہ ان دہشت گردوں سے میرے بچے عورتیں بوڑھے جوان شہید کئے اور ان کے گھر جلاکر انہیں بے گھر کر کہ ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔آپ ہی کی سرپرستی میں میرے پھول جیسے ہزاروں بے گناہ نوجوان دن دہاڑے بے دردی سے شہید ہوئے جن میں سے مشال خان اور نقیب اللہ مسعود اس تسلسل کے دو زندہ مثالیں ہیں۔

لاہور پولیس نے لاہور میں مزدور پشتونوں پر نظر رکھنے اور تنگ کرنے کا برملا حکم دیا۔آپ نے چھ گھنٹے تک کراچی میں معصوم پشتونوں پر گولیوں کی بارش کی اور خود اسلام آباد میں سینہ تان کر فرمایا دیکھ لی عوام کی طاقت۔آپ نے آرمی پبلک اسکول پشاور کے ایک سو چوالیس پشتون طلباء کے وحشی قاتل کو معاف کرکہ ٹی وی پر بیٹھا کر ہمیں کیا پیغام دیا۔آپ نے جعلی فوجی آپریشن کے نتیجے میں اس سوات کو کہاں سے کہاں پہنچایا جس کا لٹریسی ریٹ نوے فیصد تھا۔

آپ نے ایک مرتبہ پھر صوفی محمد کو میک اپ کرا کے اسٹوڈیو پر بٹھا کر ہمیں کیا دکھانا چاہتے ہیں۔آپ نے ایک دن میں میرے چھپن وکلاء کو موت کی نیند سلایا تب بھی میں نے بغاوت کا راستہ اپنانے سے گریز کیا۔آپ نے انچاس رجسٹرڈ ووٹ لینے والے شخص کو پشتون بلوچ مشترکہ صوبہ بلوچستان میں لاکھوں پشتونوں کا وزیر اعلی منتخب کر کہ ہمیں کیا پیغام دیا۔آپ کا پشتون علاقوں میں گلیوں سے زیادہ ایف سی چیک پوسٹ بناکر ہمارے غریب پشتونوں کو ٹارچر کرنے میں کیا راز ہے ۔

مگر۔۔۔۔۔ہم نے پھر بھی پاکستان مردہ باد نہیں کہا۔آخر ریاست ہم سے کیا چاہتی ہے؟

3 Comments