سیکس ایجوکیشن کیا ”بلا“ہے؟

شبانہ نسیم

اکیسویں صدی میں قدم رکھنے کے باوجود ہمارے معاشرے میں آج بھی سیکس نامی چیز کے متعلق کھلے بندوں بات کرنا معیوب خیال کیا جاتا ہے ۔چونکہ ہمارے یہاں فیملی سسٹم آج بھی تقریباً اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رائج ہے لہٰذا گھر کے بڑے بوڑھے لفظ ”سیکس“ کے سننے پر برہم دکھائی دیتے ہیں ۔

اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھائی جب مذکورہ عمل کیلئے لفظ ہی سیکس یا مباشرت ہے تو اسے کوئی کس طرح کتاب،آئس کریم یا چاکلیٹ کہہ سکتا ہے؟ اور دوسری بات ہر انسان اسی عمل کے نتیجے میں ہی اس دنیا میں آیا ہے اور ہر جوڑا جو بعد از والدین کہلاتا ہے اس عمل کو کرنے کے بعد ہی بچہ دنیا میں لاتاہے، پھر یہ عمل اس قدر برا کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟

ملک میں بیشتر افرادکی رائے کے مطابق سیکس ایجوکیشن کو سیکس کرنے کا نمونہ عملی طور کسی کے ساتھ کر کے دکھایا جانا سمجھا جاتا ہے ۔ جناب اگر سیکس ایجوکیشن کا مطلب آپ کی سوچ کے مطابق ہے تو کیا پڑ ی ہے اس موضوع کو زیر بحث لانے کی انٹرنیٹ کا استعمال تو ساری دنیا کیلئے حلال ہے آپ آرام سے اپنے سمارٹ فونز یا لیپ ٹاپس پر پورن فلم باآسانی دیکھ سکتے ہیں، اور مجھے یقین ہے اس کام کیلئے آپ کو میرے مشورے کی قطعاً ضرورت نہ ہوگی ۔

پر یہاں ایک بات واضح کرنا ضروری ہے کہ سیکس ایجوکیشن کا مطلب ہر گز پورن فلم جیسا نہیں ہے ۔ سیکس ایجوکیشن یا جنسی تعلیم کا بنیادی مقصد لوگوں کو جنسی معاملات کے متعلق ہدایات دینا ہے ، جس میں جذباتی رشتے اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذمہ داریاں،جنسی اناٹمی،جنسی سرگرمیاں ، تولیدی صحت ، رضامندی کی عمر،تولیدی حقوق، محفوظ جنسی عمل ، جنسی فعل سے اجتناب اور پیدائش پر کنٹرول وغیرہ شامل ہیں ۔

اگرچہ مذکورہ معلومات والدین کو اپنے بچوں کو دینی چاہییں تاہم ہمارے ہاں چونکہ اکثربڑوں کی رائے کے مطابق ایسی معلومات بچوں کو دے کر انکا ذہن سیکس جیسے عمل کی طرف لگانے والی بات ہے ،پس جب شادی ہو جائے گی تو انکو سب پتہ لگ جائے گا ۔شادی کے بعد پتہ لگنے کے نتائج تو خیر کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اور ایسے بیشتر معصوم چھپے رستم شادی نہ ہونے اور جوان ہونے کے درمیانی عرصے میں خواتین اور بچے ،بچیوں کی زندگی عذاب کیے ہوتے ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر کوئی اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینا چاہے تو اس کیلئے موضوع ترین عمر کیا ہونی چاہیے ؟تو جناب آپ اپنے بچے کو ابتدائی عمر سے ہی جنسی معاملات سے آگاہی دے سکتے ہیں۔مثال کے طور پر جب بچے چیزوں کے متعلق سوال پوچھنے لگیں اور آپ انھیں جسم کے حصوں کے نام سکھانے لگیں تو کوشش کریں انھیں جسم کے ہر حصے کا نام مکمل طور پر سکھائیں ۔

کوشش کریں کہ بچوں کے سامنے کبھی بھی جسم کے خاص حصوں کو غلط یا مختلف ناموں سے نہ پکاریں ۔عام طور پر بچے جب تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تواپنے دوسرے پیدا ہونے والے بہن بھائیوں کے متعلق مختلف سوال کرتے ہیں ۔وہ والدین خصوصاًوالدہ سے سوال کرتے ہیں کہ یہ چھوٹے بہن بھائی کہاں سے آئیں ہیں ۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے سولات کو تحمل سے سنیں اور ان کے جوابات ہمیشہ پوری سچائی سے دیں ۔ علاوہ ازیں بچے جب چوتھی یا پانچویں جماعت میں پہنچتے ہیں تو وہ نر مادہ کے فرق کے بارے میں بہت سے سوالات کرتے ہیں انکے تمام تر سوالات کو حوصلے سے سنیں اور انکی رہنمائی کریں ۔ صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں واضح طورپر معلومات فراہم کریں کہ وقت کے ساتھ ان میں بھی یہ جسمانی تبدیلیاں رونما ہوں گی تاکہ بچے وقت آنے پر اپنی جسمانی تبدیلیوں سے پریشان نہ ہوں ۔

یاد رکھیں اگر والدین اپنے بچوں کو جنسی عمل کے متعلق معلومات فراہم نہیں کریں گے تو بچے لازمی طور پر یہ باتیں اپنے ارد گرد کے ماحول سے سیکھیں گے جو ان کی آنے والی زندگی کیلئے خطرناک بھی ہو سکتی ہیں ۔


Comments are closed.