کیا ملک کو اب مشتعل شہری، بابا رحمتا اورآرمی چیف ہی چلائیں گے؟

طارق احمدمرزا


قصور کی معصومہ زینب کے انتہائی افسوسناک واقعہ کے بعددیکھتے ہی دیکھتے جس طرح حالات بدل کرکچھ اور ہی رخ اختیار گئے،مشتعل مظاہرین کے ساتھ جدید خطوط پر معاملہ کرنے اور سنجیدگی کے ساتھ کوئی مناسب حکمت عملی کو بروئے کار لانے کی بجائے مبینہ طور پران پر لائیو فائرکھول دیاگیا۔مزید قیمتی جانوں کاضیاع ہوا،مزید شہری مشتعل ہوئے، مزیدوزراء کی مزید بیان بازیاں اور پھرآخرمیں حسب سابق ایک بار پھرحالات کی گیندآرمی چیف کی کورٹ میں پہنچا دی گئی۔

ملک کے آرمی چیف نے بیان جاری کیا کہ ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے وغیرہ۔

دنیا کا ایسا کون سا ملک ہے جہاں ایسا ہوتا ہے؟۔منتخب سول حکومت کی موجودگی میں ملک کی افواج کے سربراہ کو اس قسم کا بیان جاری کرنے کی ضرورت پاکستان کے علاوہ دنیا کے کس ملک میں پڑتی ہے؟۔کیا پاکستان کو اب مشتعل مظاہرین اور آرمی چیف کے بیانات اوریقین دہانیوں نے ہی چلاناہے؟۔

آخر ہمارے مظاہرین،خواہ وہ دھرنے والے ہوں یامشتعل شہری،آرمی چیف سے کم عہدہ کے کسی اہلکارکی یقین دہانی پر راضی کیوں نہیں ہو تے؟ اگر آرمی چیف نہیں تو چیف جسٹس سوموٹونوٹس لے کر ملکی اور قومی معاملات سلجھاتے نظرآتے ہیں۔

ادھر حکومتی عمائدین ہیں کہ سرپہ چڑھے انتخابات کے شدید قسم کے بخار میں مبتلا بوکھلائے پھر رہے ہیں۔

وزیراعظم بلوچستان میں ناراض اراکین کو منانے میں ناکام اور ناراض اراکین انہیں نو لفٹ کرکے’’ صوبائی خودمختاری‘‘ کو کامیابی سے استعمال کرنے پرمعنی خیزمسکراہٹیں بکھیرنے میں مصروف ہیں۔
اس انوکھی صوبائی خودمختاری کے پہلے کامیاب استعمال اور ملک کے وزیراعظم کے ناکام ترین صوبائی دورہ کے دوران عین صوبائی اسمبلی کے قریب ایک خود کش حملہ مزید قیمتی جانوں کا ضیاع کرکے پوری ریاست کے منہ پہ ایک طمانچہ رسید کر دیتا ہے۔

ادھر ہرسال کینیڈا کی شدید سردی سے بھاگ کر پاکستان کی فضاؤں میں فساد کاالاؤ جلا کر اس میں اپنے ہاتھ اور بقول شخصے جیب گرم کرنے والا کینیڈین مولوی اپنی برانڈ کے انقلاب کی باسی کڑی میں ابال لانے کے ایک بارپھر پر تول رہا ہے۔ 

نئے پاکستان کا داعی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا ایک ایسے متنازعہ شخص کے بلائے ہوئے جلسے میں شرکت کر رہا ہے جس کے جلسے میں شریک ہونے والے غیرملکی سفیرواپس اپنے ملک بلا لئے جاتے ہیں۔
دنیا کی سپرپاور نے ہیومن رائٹس کے حوالے سے ملک کو ’’واچ لسٹ‘‘پہ ڈال دیا ہے۔

ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔

حکومتی مشینری نااہل ،غیر صادق اور غیر امین قرار دے دئے جانے والے پارٹی سربراہ کو ملک کے طول وعرض میں( اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے ہوتے ہوئے) ’’احتجاجی‘‘ جلسے منعقد کروانے کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔

کیا یہ ترقی و استحکام کی باتیں ہیں؟۔یہ کیسا جانِ استقبال ہے؟۔کیا قوم ،ملک،سلطنت پائندہ تابندہ بادہو رہی ہے؟۔

کیا ہم ایک ناکام ریاست کے باشندے نہیں بن چکے ؟۔شادبادمنزلِ مراد سے مرادکیاہے اوروہ کہاں ہے؟۔

اور پھر یہ کہ کیا ہماری شانِ حال واقعی ترجمانِ ماضی کہلائے جانے کے لائق رہی ہے؟۔

انارکی  اور انتہائی بدنظمی کسے کہتے ہیں؟۔ 
کوئی ہے جو ان سوالوں کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہو؟۔

♥ 

2 Comments