شب قدر کا فہیم اشرف قاتل کیوں بنا

علی ا حمد جان

شب قدر مہمند ایجنسی کی طرف جاتے ہوئے چارسدہ کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بنے ایک قلعے کہ وجہ سے اس لئے بھی مشہور ہے کہ یہاں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے ایک رات کے لئے قیام کیا تھا۔ شب قدر کے قلعے کے علاوہ یہاں کی دستکاری اور خاص طور پر اوڑھنے والی شال بھی مشہور ہے جو بیرون ملک پاکستان کی ایک خاص سوغات سمجھی جاتی ہے۔

چار سدہ کو مردم خیز زمین کہا جاتا ہے یہاں کےخدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان عرف باچا خان نے ایک آفاقی شہرت پائی۔ چارسدہ مولانا حسن جان کی بھی جنم بھومی ہے جس نے خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کرکے اپنے ہی شاگردوں کے ہاتھوں داعی اجل کو لبیک کہا تھا۔

شب قدر کے ا سلامیہ کالج کے سال دوم کے طالب علم فہیم اشرف نے جنوری کی ۲۲ تاریخ کو اپنے استاد اور کالج کے اسلامیات میں ڈگری یافتہ اور حافظ قران پرنسپل صریر احمد کو گولیاں مار کر اس پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے کسی قسم کی شرمندی یا تاسف کا اظہار بھی نہیں کیا۔

اطلاعات کے مطابق اشرف نے کوشش کی کہ پستول سے چھ گولیاں مارنے کے بعد بھی زخمی پروفیسر صریر احمد کو ہسپتال پہنچانے کی کوشش کو روک دے ۔ اس واقعے کو کالج کے سینکڑوں طلبا نے دیکھا اور کوئی روک بھی نہ سکا اس کی وجہ وہ اشرف کا ایسا جنون تھا کہ جس کے سامنے کوئی بھی آتا تو وہ وہی کرتا جو اس نے اپنے استاد کے ساتھ کیا تھا ۔

چارسدہ، مردان، صوابی اور پشاور کے اضلاع کاشتکاری کے لئے زرخیزہیں ، یہاں کے لوگ تعلیم یافتہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کوئی نظریاتی طور جتنا بھی اختلاف رکھے مگر یہاں سے تعلق رکھنے والے جنرل فضل حق ، آفتاب شیر پاؤ، حیدر ہوتی اور اب پرویز خٹک نے کہیں اور خیبر پختونخواہ میں کچھ کیا ہو یا نہیں لیکن ان اضلاع میں ہوئی ترقی یہاں کی سڑکوں، ہسپتالوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی شکل میں صوبے کے دیگر علاقوں کی نسبت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔

اس تازہ واقعے اور ایک سال پہلے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں اپنے ساتھی طلبہ اور اساتذہ کے ہاتھوں مشال کے قتل نے یہاں پر ہونے والی ترقی اور خاص طور پر ہمارے نظام تعلیم پر بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔

ہمارے نظام تعلیم کی کمزوری یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں بہترین عمارات، کھیل کے میدان اور لائبریری کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ اساتذہ کی موجود گی کے باوجود معیار تعلیم بہتر نہ ہوسکا۔ دوسری طرف نجی تعلیمی اداروں میں کم سہولتوں کے ساتھ تعلیم بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہے۔

ایک بہت بڑی خامی جو پورے جدید تعلیمی نظام میں پائی جاتی ہے وہ تعلیم برائے حصول روزگار کی مقصدیت ہے جس کی وجہ سے طلبہ اپنے شوق اور دلچسپی سے زیادہ تعلیم کی معاشی اور اقتصادی افادیت کو مد نظر رکھتے ہیں۔ تعلیم برائے حصول روز گار کا شاخسانہ یہ ہے کہ فلسفہ، ادب ، آرٹ ، فنون لطیفہ سمیت کئی علوم میں نوجوانوں کی دلچسپی کم ہوگئی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کاروبار، کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر تکینکی مہارت کے علوم کا رجحان بڑھ گیا۔

اگر کسی کی اس میں دلچسپی ہو تو تکنیکی اور تجارتی علوم حاصل کرنےمیں کوئی برائی نہیں لیکن ایسی تعلیم کو محض اقتصادی مقاصد ساتھ حاصل کرنے سے حصول علم کا مقصد پورا نہیں ہو پاتا۔ حصول علم کے اس نئے تجارتی پہلو سے معاشرے میں پائی جانے والی علمیت کو نقصان پہنچاہے اور معاشرتی مکالمے کا دائرہ محدود ہو گیا ہے۔ معاشرتی مکالمے کے دائرے کے محدود ہوجانے سے معاشرتی جدت اور نئے خیالات اور رجحانات کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا اور لوگ اپنے موروثی تصورات اور خیالات سے باہر نہیں آسکتے۔

ہمارے نظام تعلیم کا ایک اور المیہ اس کا اسلامائز ہو جانا ہے۔ ابتدا ہی سے نصاب تعلیم میں مذہبی مواد کئ بھر مار ہوتی ہے جس سے ایک طرف طلبہ پر تعلیم کا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو دوسری طرف ان کے ذہنوں میں ابتدا ہی سے مذہی عقائد کی نقش کاری ہوتی ہے جو رہتی زندگی ان کے ساتھ رہتی ہے۔

ایک مرحلے پر مذہبی مواد فرقہ ورانہ مواد میں بدل جاتا ہے اور جوانی میں ہی طلبہ اپنے اپنے مذہبی مکتبہ فکر کے نابغوں ، علما ء اور شیوخ سے متاثر ہوکر ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات نوجوان اپنے ماں باپ، دوست احباب اور اساتذہ سے زیادہ اہمیت اپنے مذہبی علماء کو دیتے ہیں اور ان کے حکم کو بجا لانا اور ان کے دکھائے راستے پر چلنا اپنا ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حال ہی میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں مذہبی علماء اور شیوخ کی باتوں سے اثر لے کر کسی کی جان تک لینے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔

ہمارے سیاسی نظام میں مذہب کے بڑھتے عمل دخل کے ساتھ ہی نت نئے انتہا پسند مذہبی نظریات بھی متعارف ہوئے۔ سیاست میں مذہبیت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج کل مذہب کی سیاست کے مرحلے پر ہے جہاں ایک ہی مکتبہ فکر کے مذہبی رجحانات اور تصورات رکھنے والے بھی مذہب کے سیاسی تصور کےاپنے اپنے مخصوص انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔

فیض آباد کے جس دھرنے میں شرکت کرنے پر شب قدر کے اسلامیہ کالج کے طالب علم اشرف کی غیر حاضری لگانے پر پرنسپل صریر کا قتل ہوا وہ مذہبی سیاست میں انتہا پسند نظریات کے اثرات کا محض ایک نمونہ ہے۔ جس انداز میں اس سیاسی دھرنے میں لوگوں کی شرکت کو ایک مقدس فریضہ بنا کر باور کروایا جاتا رہا اس سے شرکاء کو یقین ہو چلا کہ وہ ایک عظیم فریضے سے سبکدوش ہوئے اور جنھوں نے ایسا نہیں کیا وہ گنہگار اور کم درجے پر ہیں لہذا ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا سلوک روا سمجھا گیا۔

اشرف نے بھی دھرنے میں شرکت کو اپنی کسی بھی زمہ داری اور فرض سے مقدم جانا اور ایسا نہ سمجھنے والا یا کسی اور ذمہ داری کو اس کے مذہبی فریضے پر فوقیت دینے والا اس کی نظروں میں انتہائی سنگین غلطی کا مرتکب ہوکر واجب القتل ٹھہرا۔ ایک استاد کے کی نظروں میں ایک طالب علم کی پہلی اور اولین ترجیح اس کا حصول تعلیم ہونا چاہئے جو مقتول پرنسپل صریر احمد کا بھی تھا۔ جب استاد نے طالب علم کو اس کی ذمہ داری یاد دلانے کی کوشش کرکے اپنے معلم ہونے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے سخت سست کہا ہوگا تو یہ بات تازہ تازہ ذہنی اور فکری طور پر کسی اور دبستان سے وابستہ ہوئے نوجوان کو ناگوار گزری ہوگی جس کا نتیجہ استاد کی موت کی صورت میں نکلا۔

فہیم اشرف کو قاتل بنانے میں صرف اس دھرنے میں بھاشن دینے والے ہی ذمہ دار نہیں جن کے نظریات سے بظاہر متاثر ہوکر اس نے ایسا انتہائی اقدام اٹھایا بلکہ اس کی بنیادی ذمہ داری اس کے ماں باپ پر بھی عائد ہوتی ہے جنھوں نے اپنے نوجوان بیٹے کے کئی دنوں تک کالج نہ جانے کا نوٹس نہیں لیا اس اس کے بدلتے رجحانات کو محسوس نہیں کیا۔

اس کےذمہ دار کالج میں اس کے استاد بھی ہیں جنھوں نے ایک نوجوان کے بدلتے نظریات اور خیالات کا احساس کئے بغیر اس کوبرانگیختہ کردیا اور وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا۔ اشرف کے قاتل بن جانے میں ایک بہت بڑا کردار بطور مجموعی اس معاشرے کا بھی ہےجہاں مکالمے کی گنجائش باقی نہیں رہی اور اب مباحثہ ہوتا ہے جو ہمیشہ تشدد پر ختم ہوجاتا ہے۔

مجھے مشال خان کو مارنے والوں اور فہیم اشرف کے قتل کرنے سے زیادہ خوف اب اس بات کا آنے لگا ہے کہ برداشت، رواداری اور مکالمے کے معنی سے بھی نابلد جوان ہوئی اس نسل کے ہاتھ میں کل اس ملک اور معاشرے کی بھاگ ڈور آنے والی ہے۔ عدم برداشت اور تشدد کی اس چنگاری کو شعلہ بننے سے نہیں روکا گیا تو یہ پورے کھلیان کو جلا کر بھسم کردے گی اور ککھ بھی نہیں رہے گا۔

Comments are closed.