موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

انسانی حقوق کی کارکن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر محترمہ عاصمہ جہانگیر آج بروز اتوار لاہور میں  دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئیں۔ محترمہ کی عمر  66 سال تھی۔ محترمہ ستائیس ، 27 جنوری سنہ 1952 کو لاہور میں پیدا ہوئیں تھیں۔ ۔ محترمہ نے کنیئرڈ کالج لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی۔

انہوں نے 1980 میں لاہور ہائی کورٹ اور 1982 میں سپریم کورٹ بار کی ممبر شپ حاصل کی۔  محترمہ عاصمہ جہانگیر کو یہ اعزاز بھی  حاصل رہا کہ محترمہ عاصمہ جہانگیر، پاکستان سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر منتخب ہونے والی پہلی خاتون وکیل تھیں۔ اس کے علاوہ محترمہ انسانی حقوق کمیشن کی سابق سربراہ بھی رہی ہیں۔

محترمہ عاصمہ جہانگیر    ایک نڈر اور بے باک خاتون تھیں، پاکستان میں انسانی حقوق کی  موثّر ترین آواز تھیں۔ محترمہ کی وجہ شہرت کمزوروں اور مظلوموں کے حق کے لئے آواز بلند کرنا اور  مقتدرہ و دیگر عسکری اداروں کی پالیسیوں اور کارگزاریوں پر شدید تنقید کرنا  تھی۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر ریاستی اداروں کی جانب سے کی  جانے   ماوارائے آئین و قانون سرگرمیوں ، پر کڑی نظر رکھتی تھیں،  شدید احتجاج  کرتی تھیں، بلا خوف و خطر آواز بلند کرتی تھیں۔

 عاصمہ جہانگیر  جمہوریت کی بالا دستی اور عدلیہ  کی بحالی کی تحریک میں  بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ عاصمہ جہانگیر 1983 میں ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف ،   بحالی جمہوریت کی تحریک میں  قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کی ہے۔  

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ، خواتین کے حقوق کی پامالی  اور اقلّیتوں کےساتھ ہونے والی زیادتیوں   کے لئے عاصمہ جہانگیر ساری زندگی آواز اٹھا تی رہی ہیں۔   عاصمہ جہانگیر کو اکثر اپنی جراءت اور بیباک رویّے کی قیمت چکانا پڑی ہے۔ پنجاب پولیس نے ایک عوامی مظاہرے کے دوران محترمہ عاصمہ جہانگیر  کے ساتھ بدترین تشدّد اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے کپڑے پھاڑ کر اپنی  درندگی کا ثبوت دیا تھا، مگر عاصمہ جہانگیر  عزم و استقلال کا استعارہ ثابت ہوئیں۔ ظالموں کے آگے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔

مظلوموں اور کمزوروں کے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں محترمہ کو کئی دفعہ جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں، مگر محترمہ ایک نڈر اور بے خوف خاتون تھیں ، کبھی کسی دھمکی سے نہیں گھبرائیں، ہمیشہ جرات اور استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے آوازِ حق بلند کرتی رہیں۔

کراچی اور بلوچستان میں مہاجر اور بلوچ نوجوانوں کی پراسرار گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، مسخ شدہ لاشوں  پر جتنا احتجاج  تن تنہا عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے کیا ہے، کسی انسانی حقوق  کی تنظیم نے نہیں کیا۔

جمہوریت کی بحالی، عدلیہ کے وقار، خواتین  و اقلّیتوں کے حقوق،  کمزوروں اور مظلوموں کی داد رسی، قانون توہینِ مذہب  میں ترامیم اور اظہار رائے  کی آزادی کے لئے محترمہ کی خدمات  پاکستان کی شہری آزادیوں کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔  

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

آصف جاوید

2 Comments