آسٹریلیا:نئی رفیقۂ حیات وزارت اور پارٹی صدارت سے محروم کرگئی

طارق احمدمرزا

آسٹریلیا کے نائب وزیراعظم مسٹر جوائس نے اپنے نئے رشتہ ازدواج کا اعتراف نما اعلان کیا کیا ملک بھر میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔سوشل میڈیا،اپوزیشن اور متعددحکومتی ممبران پارلیمنٹ کی لعن طعن حتیٰ کہ خود اپنی نیشنل پارٹی کے ممبران اور وزیراعظم مسٹر ٹرن بل کی تنقیداور مذمت کا بھی نشانہ بن گئے۔نائب وزیراعظم نے ہر چند کہا کہ کسی بھی شخص کی ازدواجی زندگی اس کا بالکل نجی اور ذاتی معاملہ ہوتا ہے چاہے وہ سیاستدان ہو یا کوئی اور لیکن آسٹریلیا جیسے مغربی ، ترقی پسند،اور آزاد خیال معاشرے نے ان کی کوئی نہ سنی۔

ہر ٹی وی چینل ،ہر اخبار،ہر رسالہ ہر ریڈیو پروگرام اور دیگر سوشل میڈیا پہ ان کے نئے ازدواجی بندھن پہ تبصرے ہی نہیں باقاعدہ مباحثے منعقد ہونے شروع ہو گئے ،زیادہ تر لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ تم ایک پبلک سرونٹ اور قومی لیڈر ہواور قومی لیڈروں کی ذاتی زندگی بھی قومیائی ہوئی ہوتی ہے،ان کی ذات اور زندگی کا کوئی گوشہ عوام سے اوجھل یا جداقرار نہیں دیا جا سکتا اس لئے عوام کو ان کی زندگی کے اس ’’نام نہاد‘‘ ذاتی اور نجی پہلو پر تنقید یا تعریف کاپورا پورا حق حاصل ہے ۔عوامی رہنماؤں کی زندگی کا یہ پہلو ان کے پیروکاروں اور مداحوں کے لئے ایک نمونہ بھی ہوتا ہے اورانہیں پرکھنے کی ایک کسوٹی کی حیثیت بھی رکھتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

بیچارے نائب وزیراعظم صاحب ،،جو مخلوط حکومت میں شامل آسٹریلین نیشنل پارٹی کے سربراہ بھی تھے، اس سارے پریشر کی تاب بالآخر نہ لا سکے اور 23 فروری کو وزارت کے عہدہ سے ہی نہیں بلکہ پارٹی کی صدارت سے بھی مستعفی ہونے کااعلان کردینے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ وہ اپنے اس نئے بندھن کے نتیجے میں ایک بچے کے باپ بھی بننے والے ہیں، اس ملک گیر طوفان بدتمیزی کی وجہ سے ان کی نئی گھریلو زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔اس کا منفی اثر ان کی سابقہ اہلیہ اور ان سے ان کے بچوں پربھی اثراندازہورہا ہے۔

قارئین کرام اس سارے فسانے میں اصل بات جو بہت سوں کو ناگوار گزری (جس کا میں نے اب تک ذکر نہیں کیا) اورجو اس ’’قومی سیاسی ڈرامے‘‘ کاسنسنی خیز ترین اور بنیادی نکتہ بحث اور نکتہ اعتراض بنی ،وہ یہ ہے کہ مسٹرجوائس کی نئی شریک سفر (پارٹنر)پارلیمنٹ میں ان کے دفتر کی ایک عہدہ دارہیں جو سرکاری احکامات وصول کرتے کرتے احکامات جاری کرنے والے حاکم کو ہی وصول کر گئی ،چنانچہ نائب حاکم اعلیٰ پارلیمنٹ بلڈنگ کے اندرہی اندر نائب خادم اعلیٰ بن چکا تھا۔اب عامل معمول تھا اور معمول کی حیثیت عامل کی ہو چکی تھی ۔یہ مرشداپنی مریدکی جنبش ابرو پہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہنے لگ گیا تھا۔

اس سلسلہ جنبانی سے دواڑھائی ماہ قبل ہی ان کی اپنی اہلیہ سے علیٰحدگی بھی ہو چکی تھی جسے اب تجزیہ نگار’’ریورس ٹائم لائن‘‘ بنا کر کچھ اور ہی تار ملانے کی کوششوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں۔ 
خلاصہ کلام یہ کہ آسٹریلیا کا یہ’’ بل کلنٹن‘‘ اپنی’’ ہلری‘‘ کو رستے سے ہٹاکر اپنی’’ مونیکا لیونسکی ‘‘کوغیر اعلانیہ طورپر رفیقہ دفتر کے عہدہ سے ترقی دے کر رفیقہ حیات کے مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیالیکن افسوس کہ ظالم سماج اس طرح سے دو دلوں کو ملتے کب برداشت کرتا ہے۔مسٹرجوائس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ برطانیہ کے کنگ ایڈورڈ ہشتم کی طرح انہیں بھی اپنی محبت کی خاطرتاج و تخت سے دست بردار ہونا پڑ جائے گا۔لیکن مقدر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔

مسٹر جوائس کواس سے قبل اپنی وزارت بلکہ پارلیمنٹ اور اپنی پارٹی کی رکنیت سے ایک بار پہلے بھی دست بردارہونا پڑا تھا کیونکہ اپوزیشن نے عدالت کے ذریعہ انہیں نیوزی لینڈکی اضافی شہریت رکھنے کی بنا پرآسٹریلین پارلیمنٹ کاممبر بننے کے نااہل قرار دلوادیا تھا۔جس کے بعد انہوں نے پہلے نیوزی لینڈ کی شہریت ختم کروائی اور پھر دوبارہ اپنی ہی خالی کی ہوئی نشست پر ضمنی انتخاب لڑا جسے وہ جیت کر دوبارہ ممبر پارلیمنٹ، پارٹی صدر اور نائب وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔

آپ اپنی دوہری شہریت سے تو جان چھڑواکر پارلیمنٹ میں دوبارہ آنے،پارٹی صدر اور نائب وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوگئے لیکن ناقدین کے بقول اس مرتبہ انہیں اپنے عہدوں سے محروم ہونے کی وجہ ان کی ’’دوہری شخصیت‘‘ بنی ہے جس کا انکشاف مندرجہ بالا واقعہ کے بعد ہوا ہے۔جب کہ مسٹر جوائس کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں،کسی کو اپنا شریک حیات بنانا کوئی غیر آئینی ،

غیرپارلیمانی،غیر انسانی،غیرفطری جرم یا گناہ تو نہیں جس کی وجہ سے انہیں اس قسم کی پھٹکار سننا پڑ رہی ہے۔ان کی تو سابقہ اہلیہ سے بھی علیحدگی ہو چکی ہے کیا انہوں نے بقیہ ساری عمر چھڑے چھانٹ ہی گزارنا تھی؟،ایک عاقل بالغ انسان ہوں،دوبارنائب وزیراعظم اورپارٹی کاصدررہا ہوں،شریک حیات ہی توڈھونڈی ہے،پھر بتاؤ مجھے کیوں نکالا؟۔

قارئین کرام لکھتے لکھتے یہاں تک پہنچا تھا کہ اچانک کچھ ڈیجیٹل روشنائی میرے کی بورڈ کی نب میں سے ڈُل کر سکرین پر ایک دھبا سابنا گئی جسے میں نے فوراً ہی ری سائیکل بِن کے سیاہی چوس کے ذریعہ ڈیلیٹ کر دیا۔ یہ سیاہی یوں ضائع نہ ہوتی تو میں نے اسے یہ فقرہ لکھنے کے لئے استعمال کرنا تھا کہ مسٹر جوائس کی کہانی عمران خان اورنوازشریف دونوں کی کہانیوں کامجموعی چربہ نظر آتی ہے۔لیکن میں ایسی گھٹیا بات کیوں لکھوں،اچھا ہوا جو سیاہی ضائع ہوگئی۔
مضمون کو مزید طول دینے سے گریزکرتے ہوئے آمدم برسرمطلب ہوتاہوں، اصل میں بات یہ ہے کہ کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ آسٹریلیا بیشک ایک آزاد ر وش،روشن خیال،ترقی یافتہ، سیکولر مغربی جمہوری ملک تو ہے لیکن یہاں پیشہ ورانہ اخلاقیات کے انتہائی کڑے قوانین رائج ہیں۔

آسٹریلیا میں افسرماتحت،وکیل مؤکل،ڈاکٹر مریض،عامل معمول،مخدوم خادم،پیر مرید،ملا مقتدی، پنڈت پجاری ،تھراپسٹ،سائکالوجسٹ اور اس کے کلائنٹ،استاد شاگرد،انسٹرکٹر ٹرینی ،غرض ہر عہدہ ہر پوزیشن ہر پیشہ ور اور ان کے زیر اثرافراد کے باہمی تعامل کی اخلاقی حدود مقرر کی گئی ہیں۔جن پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔اس ضمن میں طبی پیشہ کی مثال دینامناسب ہوگی،آسٹریلیا میں کوئی ڈاکٹر اپنے مریض (یا مریض اپنے ڈاکٹر) سے اس کی رضامندی اور چاہت کے باوجود شادی نہیں کرسکتا،یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر مریض کے کسی قریبی رشتہ داریا تیماردار کے ساتھ بھی رومانوی جذباتی لگاؤ کا اظہاریا رشتہ ازدواج نہیں کرسکتا،اگر ایسا کرے گا(یا کرے گی) تو اس کا لائسنس کینسل کرکے اسے میڈیکل پریکٹس کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور اس پر عائد پابندی کا اعلان بھی کیاجاتا ہے۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مریض یا مرید یاگاہک یا کوئی بھی پروفیشنل کسٹمراورماتحت وغیرہ ایک بیچارگی،احتیاج، اور مجبوری کی کیفیت میں اور مغلوب ہوا ہوتا ہے۔وہ اپنے پروفیشنل’’ محسن ‘‘ کی صلاحیتوں،شخصی صفات، علم، مہارت، دولت،مقام،شہرت یاپھر سیاسی،سرکاری،روحانی،مذہبی ،نفسیاتی،سماجی،معاشی اتھارٹی اور پوزیشن سے شعوری یا لاشعوری طور پرمرعوب یا دبا ہواہوتا ہے یا غیرحقیقی اور شدید قسم کا اعتبار کئے ہوتاہے اور کسی بھی نازک مرحلہ یا ’’خطرناک‘‘ موڑ پرایک ایسی غلطی یا لاپرواہی کا مرتکب ہو جاتا ہے جس کا فائدہ اسپر حاوی یاغالب پروفیشنل یا افسر وغیرہ شعوری یا لاشعوری طور پر اٹھا سکتا ہے اور اس نازک تعلق کو اپنے حق میں ایکسپلائٹ کرسکتاہے۔ایسے مجبور افراد کو ’’ورنریبل‘‘ کہا جاتا ہے یعنی یہ دوسروں کے رحم وکرم پہ رہنے کی وجہ سے ہر وقت رسک پہ ہوتے ہیں اورقوت فیصلہ سے محرومی کے باعث اپنے علاوہ اپنے محسن کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔

اسی رسک سے ان لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لئے آسٹریلیا جیسے ممالک میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کی حدودمقرر کی گئی ہیں جنہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔

مستعفی ہونے والے آسٹریلین نائب وزیراعظم مسٹرجوائس نے اپنی سٹاف کے ساتھ قائم کردہ ذاتی تعلقات کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں جو وزرا یا ممبران پارلیمنٹ پر اپنے سٹاف کے ساتھ بالرضا جنسی یا رومانوی یا ازدواجی تعلقات قائم کرنے پرپابندی لگاتا ہو جس کے جواب میں وزیراعظم نے نہ صرف انہیں کم عقل قراردیا بلکہ حکم جاری کیا کہ پارلیمنٹ کی دیواروں اور راہداریوں میں جگہ جگہ یہ نوٹس لگائے جائیں کہ جملہ وزرأ پراپنے ماتحتوں کے ساتھ اس قسم کے تعلقات قائم کرنے پر پابندی عائد ہے ۔پھرنہ کہنا کہ مجھے کیوں نکالا۔وزیراعظم کی زبان سے ’’رشتہ‘‘ ہوجانے کی مبارکباد کی بجائے ایسا کورا اور مایوس کن جواب سننے پر نائب وزیراعظم کے پاس استعفیٰ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ باقی نہ رہا ۔ان کے مستعفی ہونے پر البتہ وزیراعظم نے بہت خوشی کا اظہارکیاہے!۔
اس صورتحال پہ بزرگوں اور سیانوں کے کہے ہوئے کئی اقوال اور ضر ب الامثال چسپاں ہو سکتی ہیں،کوئی ایک آدھ آپ خود ہی موزوں کر لیں ۔بہت شکریہ!۔ 

Comments are closed.