عدلیہ اور بابا رحمت

ولی محمد علیزئی

عدلیہ کسی بھی صحت مند جمہوری ریاست میں اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے جس کے بغیر جمہوری ریاست نامکمل تصور کی جاتی ہے۔عدلیہ کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ونسٹن چرچل کے ان تاریخی الفاظ سے ہوتا ہے جو اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کی فتح وشکست کے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ادا کیے تھے۔اگر عدلیہ انصاف کررہی ہے تو برطانیہ کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک تقریب میں اپنی تقریر کے دوران پاکستانی عدلیہ کو بابا رحمت“ قرار دیا جو اپنے فیصلے انصاف کے تقاضوں کے مطابق اور بغیر کسی دباؤ کے کرتا ہے۔لیکن اگر عدلیہ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو عدلیہ عام عوام اور جمہوریت کیلئے ہمیشہ بابا زحمتثابت ہوئی ہے،جبکہ آمروں اور اشرافیہ کیلئے بابا رحمترہی ہے۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے چند سال بعد 1955 میں چیف جسٹس محمد منیر نےنظریہ ضرورت کے تحت گورنر جنرل غلام محمد کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ فراہم کیا۔چیف جسٹس محمد منیر کے ایجاد کردہ نظریہ ضرورتنے آنے والی آمریتوں کیلئے جواز فراہم کیا اور 1958 کو ملک میں پہلا مارشل لا لگا۔تمام آمروں نے نظریہ ضرورت کے تحت آئین سے خوب کھلواڑ کیا۔آمروں نے اکتوبر 1999 تک کئی مرتبہ منتخب حکومتوں کا تختہ الٹ کر مارشل لاء کا نفاذ کیا اور عدلیہ نے ان مارشل لاؤں کو آئینی جلا بخشی۔

دوسری طرف فرنگی سامراج کے خلاف حقیقی جدوجہد کرنے والے عظیم پشتون راہنماؤں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی،باچا خان، دیگر بلوچ و سندھی قوم پرست راہنما اور سیاستدانوں کو مخصوص قوتوں کے ایماء پر غداری کے سنگین الزامات کے تحت عدلیہ نے کئی کئی برس پابند سلاسل رکھا۔ذولفقار علی بھٹو کو ایک آمر کے ایماء پر پھانسی دی گئی۔بھٹو کا عدالتی قتل عدلیہ کے دامن پر ایک بہت بڑا دھبہ ہے جس سے تاریخ میں جوڈیشل مرڈرکے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ارسطو کا ایک مقولہ ہے کہ “قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات پھنستے ہیں ۔بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“۔اس کا عملی مظاہرہ شاہ زیب قتل کیس میں دیکھنے کو ملا،کہ کس طرح ایک طاقتور جاگیردار ثابت شدہ قاتل شاہ رخ جتوئی مجرم ہونے کے باوجود رہا ہوگیا۔

لیکن ایک غریب آدمی بیگناہ ہونے کے باوجود سالہاسال جیل کی اندھیری کوٹھری میں پابند سلاسل رہتا ہے اور کئی مرنے یا پھانسی کے بعد بری ہوجاتے ہیں۔عدالت عظمی نے قتل کے ایک مقدمے میں 24 برس بعد فیصلہ سناتے ہوئے ملزم مظہرفاروق کی رہائی کے احکامات جاری کیے تو معلوم ہوا کہ ملزم ڈھائی سال پہلے جیل میں فوت ہوگئے ہیں۔

سنہ2002 میں ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد تھانہ صدر میں دو بھائی غلام قادر اور سرور قادر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا۔عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی۔2016 میں سپریم کورٹ نے عینی گواہ کے بیان میں موجود تضاد کی بنیاد پر دونوں ملزمان کو بری کردیا تو معلوم ہوا کہ ان دونوں بھائیوں کو 13 اکتوبر 2015 کو ڈسٹرکٹ جیل بہاولپور میں پھانسی دی جاچکی ہے۔

لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت 1,869,886 کیسسز زیر التواء ہیں۔ان کیسسز میں 38,539 سپریم کورٹ میں،147,542 لاہور ہائی کورٹ میں،93,335 سندھ ہائی کورٹ میں،30,764 پشاور ہائی کورٹ میں،6,030 بلوچستان ہائی کورٹ میں اور 16,278 اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التواء ہیں۔

جبکہ سیشن عدالتوں پنجاب میں 1,184,551, سندھ میں 97,673, خیبر پشتونخوا میں 204,030,بلوچستان میں 12,826 اور اسلام آباد سیشن عدالت میں 37,753 مقدمے زیر التواء ہیں۔

پاکستانی عدالتوں میں انصاف کے حصول کیلئے عمر خضر اور صبر ایوب چاہیے۔سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے مطابق عدالت میں دائر ایک مقدمے کا فیصلہ ہونے میں اوسطاً 25 سال لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات ایک کیس تین تین پشتوں تک چلتا ہے۔

عدالتوں میں اکثر کیس بریف کیس کی نظر ہوجاتے ہیں۔سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے اعزاز میں دئیے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ آئین عوام سے سستے اور فوری انصاف کا وعدہ کرتا ہے جبکہ عدلیہ اس وعدے کو نبھانے میں ناکام ہوچکا ہے۔

عام عوام کا عدلیہ سمیت تمام اداروں پر اعتماد روز بروز کم ہوتا جارہا ہے۔عوام نے ہمیشہ عدلیہ کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اپنی جانوں کی قربانی سے عدلیہ کا دفاع کیا ہے۔جنرل (ر) مشرف نے جب عدلیہ پر وار کرکے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو معزول کردیا تو عوام نے 12 مئی 2007 کو اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے چیف جسٹس کو بحال کیا۔عدلیہ بحالی کے فوائد ملنے کے کے بجائے افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چیف جسٹس بحال ہونے کے بعد بھی عدلیہ بحالی تحریک کیلئے قربانی دینے والے بیگناہ عوام کے قاتلوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں ناکام ہوا۔

عام عوام کی اعتماد بحال کرنے کیلئے اب عدلیہ کو بابا زحمت کے بجائے بابا رحمت بننا ہوگا اور ہر قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے انصاف کے مطابق سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔جس کے ثمرات اشرافیہ کے بجائے عوام کو ملنےچاہیے۔سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو ججوں اور جنرلوں کا بھی بلا تفریق احتساب کرنا چاہیے۔انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر 12 مئی کی قتل عام کے ذمہ داروں اور نقیب محسود کے قاتل کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔اے پی ایس کے بچوں کے قاتل کو،مشال کے قاتلوں کو اور زینب کے قاتل کو عبرتناک سزا دی جانی چاہیے تاکہ کل انے والی نسلیں ایسے درندوں سے محفوظ رہ سکے۔

One Comment