تعلیم۔۔۔۔۔مگر کونسی؟

شبانہ نسیم

ملک میں صرف آج کل ہی نہیں پرانے وقتوں سے ہی تعلیم کے آسان حصول کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں ۔آج کل ماضی کے مقابلے شاید اس لیے یہ پھرتیاں ذرا تیزدکھائی دیتی ہیں کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے ۔غریب بچوں ،اوسط درجے (ڈرائنگ روم کی سجاوٹ کے چکر میں ناقص خوراک کھانے والے ) کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بچوں اور تمام تر دیگر بچوں کیلئے نا صرف حکومت بلکہ بہت سے فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والے مراکز و افراد بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔

عام طور پر جب جب الیکشن قریب قریب ہوں تو کم و بیش ملک کی تمام تر سیاسی جماعتیں دیگر وعدوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی مفت تعلیم کیلئے تعلیمی اداروں کی تعمیر کے بھی وعدے کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ہمارے ملک میں ہر بندہ ہی تعلیم کے حصول کیلئے مختلف دلائل دیتا نظر آتا ہے ۔عام افراد کی رائے کے مطابق لکھ پڑھ لینے سے اچھا روزگار مل جاتا ہے۔

صوم و صلاة کے باقاعدہ پابند لوگوں کی رائے کے مطابق دین میں علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے پس ہمیں علم حاصل کرنا چاہیے ۔مگر کوئی بھی اس سوال پہ غور کرنے یا پوچھ ہی لینے کو تیار دکھائی نہیں دیتا کہ بھائی پڑھا کیا جائے جو پڑھ لکھ کر انسان کو انسان بنائے۔اگرچہ دیگر امور جیسے ڈاکٹری ،جہاز اڑانا، عوام کی حفاظت اور لوگوں کو انصاف کی فراہمی بھی اہم ہیں لیکن تعلیم دینا شاید دنیا کا سب سے اہم ترین شعبہ ہے ۔ جس کی انجام دہی کیلئے بھی پھربہترین ذہنوں کو ہی کام کرنا چاہیے کیونکہ ان کے ہی دم سے تو دیگر تمام شعبے کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں ۔مگر ہمارے ملک میں تعلیم ،تعلیم کی گردان تو جاری ہے مگر تعلیم کیلئے نصاب کی تیاری کون کرے گا اور پڑھائے گا کون اس طرف کچھ زیادہ توجہ دی جاتی نظر آتی نہیں۔

چند دن پہلے ملک بھر میں موجود صوم وصلاة کے پابند لوگوں کی من پسند سمجھی جانے والی اخبار کے دو تراشے اوپر تلے میری نظر سے گزرے جن میں ایک تراشے میں محترمہ ملالہ یوسفزئی صاحبہ کینیڈین وزیراعظم جناب جسٹن ٹروڈو کے ساتھ اس عہد کا اعادہ کرتی نظر آرہی تھیں کہ وہ دنیا بھر کی خواتین کیلئے تعلیم عام کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔محترمہ ملالہ یوسفزئی کی تعلیم عام کرنے کے حوالے سے اب تک کی جانے والی تمام تر کوششوں سے ہم سب آگاہ ہیں اور انکی لگن بھی بیشک کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے ،لیکن یہاں بھی میرا سوال ”کونسی تعلیم“جوں کا توں ہی رہا۔

دوسرے تراشے میں ہمارے ایک صوبائی وزیر قانون صاحب (جن پر حال ہی میں عقیدہ ختم نبوت کے قوانین میں رد و بدل کرنے کی پاداش میں استعفی دینے کیلئے ملک کی مذہبی جماعتوں کی جانب سے دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے )ایک مذہبی رہنما کے ساتھ یہ کہتے ہوئے نظر آئےکہ بچوں کیلئے مرتب کردہ نصاب میں ترمیم کیلئے ضروری ہے کہ علماءدین اس نیک کام میں اپنا حصہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ ڈالیں تاکہ بچوں کے تعلیمی مستقبل کو بہتر انداز میں روشن کیا جا سکے ۔

جناب کی اس تجویز کو پڑھ کر ذہن میں پہلا سوال یہ پیدا ہوا کہ وہ کونسے والے علماءدین ہوں گے جو بچوں کیلئے سلیبس ترتیب دیں گے ؟

۔1۔دھرنوں میں لائیوغیر اخلاقی زبان کا بے دریغ استعما ل کرنے والے ۔

۔2۔ حجروں میں ننھے منے طالب علموں کے بے جان جسموں کو استعمال کے بعد غلیظ ٹشو کی طرح گندگی کے ڈھیر پر پھینک کر سچے دل سے توبہ کرنے والے۔

۔3۔ کافروں کی بنائی ہر آسائش سے لطف اٹھاکر عام لوگوں کو پتھر کے دور کی زندگی کے فوائد اور اس کے بدلے جنت کی بشارت دینے والے؟

تعلیم کے حصول کیلئے کوششیں جاری ہیں نصاب میں آئے دن تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں بچے اور جوان تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں نئے تعلیمی ادارے بھی تعمیر ہو رہے ہیں ،مگر سوال یہ ہے کہ آخر یہ کونسی تعلیم ہے جو ہمیں تہذیب، اخلاقیات ،علم اور تکریم جیسی چیزوں سے پرے پھینک رہی ہے ۔

آخر ہمارے اساتذہ ہمارے بچوں کی کیسی تربیت کر رہے ہیں کہ وہ معتدل مزاج ہونے کی بجائے جنونی طرز زندگی کی طرف مائل ہوتے نظر آرہے ہیں۔کیا اساتذہ یا والدین بچوں کو بڑے لکھاریوں کی بہترین کتابوں (جو انسانوں کی ذہنی اور اخلاقی تعمیر و ترقی کیلئے بے حد ضروری ہیں)سے صرف اس لیے دور کر رہے ہیں کہ انھیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ان کتب میں لکھا ٹیکسٹ ان کے عقیدے سے متصادم ہے؟

میرا سوال ایسا سوچنے والے تمام تر افراد سے یہ ہے کہ اگر محض اس خیال کی بنا پر اپنے بچوں اور شاگردوں کی سوچ کو ایک خاص حد تک محدود کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو کیا انکا اپنا عقیدہ خالص ہی ہے ؟کیونکہ جہاں نیت صاف ہو وہاں تو کسی چیز کے کھو جانے ختم ہو جانے یا مسخ ہوجانے کا کوئی خوف نہیں ہوا کرتا ۔

شاید ہمیں تعلیم کا رونا رونے کی بجائے پہلے تو اپنے اساتذہ کی تربیت کیلئے بہترین تربیت گاہیں تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جہاں ناصرف ملک کہ بلکہ دنیا بھرسے تعلق رکھنے والے مایہ ناز دانشوروں،لکھاریوں اور اپنے اپنے شعبوں میں بے مثال کام سرانجام دینے والے افراد کو مدعو کیا جائے تاکہ وہ ہمارے اساتذہ کی تربیت میں مدد فراہم کریں تاکہ ہمارے بچے جب سکول جیسی عمارت میں قدم رکھیں تو وہ پہلے دن سے خاموش رہنا اور غور نہ کرنا ہر گزنہ سیکھیں۔

انکی تربیت کابیڑا اٹھانے والے انھیں اس خوف سے نجات دلائیں کہ آزادی کے ساتھ کسی بھی معاملے پر سوال کرنے سے کوئی عقیدہ کسی صورت ختم نہیں ہو سکتا لہٰذا اسے ایک طرف رکھ کر عقل کی بنیاد پرسوچنا اور سوال کرنا سیکھیں ۔ 

Comments are closed.