کرکٹ کا سابق کپتان اور سیاسی ریلوکٹا

 ارشد بٹ 

کچھ عرصہ قبل عمران خان نے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کو ریلو کٹا کے لقب سے مخاطب کر کے پورے پاکستان میں اس اصطلاح کی چرچا کر دی۔

لاھور میں کھیلوں کی دنیا میں ریلو کٹا کا استعمال عام ہے۔ ریلو کٹا اس بد قسمت کھلاڑی کو کہتے ہیں جو کسی ٹیم میں جگہ نہیں بنا پاتا۔ حادثاتی صورت حال میں اگر کسی ٹیم کو اضافی کھلاڑی کی ضرورت پڑ جائے تو گیم سے باہر بیٹھے ریلو کٹے کی قسمت جا گ اٹھتی ہے۔ اس لئے ریلو کٹا کسی ایک ٹیم کا وفادار نہیں ہو تا۔ وہ ہر وقت کسی بھی ٹیم کے ہاتھوں استعمال ہونے کو تیار رہتا ہے اور اسی میں خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے۔

حیرا ن ہونے کی ضرورت نہیں پاکستان میں کرشمہ سازوں نے انواع و اقسام کے چھوٹے بڑے سیاسی ریلو کٹے پال رکھے ہیں۔ جو کرشماتی ہاتھوں کے اشاورں پر انہی کی گیم کھیلتے ہیں اور انہیں ہر وقت کرشماتی ایمپائر کی انگلی کی حرکت کا انتظار رہتا ہے۔ جمہوری حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کرناہو، آئینی سیاسی نظام میں افراتفری پیدا کرنی ہو، کسی طالع آزما کے اقتدار پر غیر آئینی قبضہ کی راہ ہموار کرنی ہو، تو سیاسی ریلو کٹوں کے کھیل کا ہائی سیزن شروع ہو جاتا ہے۔

سیاسی ریلو کٹا کے کردار کو مزید سمجھنے کے لئے عمران خان کے سیاسی سفر کے اتار چڑھاؤ کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

سنہ1997 کے عام الیکشن میں عمران خان کی تحریک انصاف نے بھر پور شرکت اختیار کی تھی۔ اس وقت بھی انکا دعویٰ تھا کہ وہ الیکشن میں زبردست کامیابی حاصل کرکے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائزہونے والے ہیں۔ پی ٹی آئی کامیابی کیا حاصل کرتی خان ذاتی نشست بھی نہ جیت پائے۔

سنہ 2002 کے الیکشن میں بھی عمران خان کی تحریک انصاف کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ قومی اسمبلی میں ذاتی نشست کے علاوہ کچھ حاصل نہ کر پائے۔ حالانکہ وزارت عظمیٰ کو چھونے کے لئے وہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت اور اسکے غیر آئینی ریفرینڈم کی کھل کر حمایت کرنے کا جرم کے چکے تھے۔

جنرل مشرف کی مجرمانہ حمایت کرنے کی وجہ سے عمران خان جمہوری حلقوں میں مشکوک نظروں سے دیکھے جانے لگے اور وہ بطور ایک جمہوری سیاستدان اپنی ساکھ کھو بیٹھے۔ یاد رہے کہ خان 2008 کے عام الیکشن کا بائیکاٹ کر کے گھر بیٹھ گئے تھے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد خان نے رہی سہی ساکھ بچانے کے لئے الیکشن کے بائیکاٹ کے راستہ اپنانے میں عافیت جانی۔

پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت کے خلاف ایسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے ساتھ ہی 2011 کے بعد عمران خان ایک مقبول لیڈر بن کر ابھرے۔ انکی یکدم مقبولیت کے پیچھے خفیہ ہاتھوں کا ذکر بھی زبان زد عام رہا۔ اسٹبلشمنٹ کے پالتو سیاسی پرندے جوق در جوق پی ٹی آئی کی چھتری پر بیٹھ کر خان کی طاقت بڑھانے میں جت گئے۔ 2013 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں صوبہ خیبر پختون خواہ کی حکمرانی کا اختیار تو مل گیا۔ مگر عمران خان کا وزیر اعظم بننے کا خواب پھر بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

پہ در پہ انتخابی شکستوں اور تیزی سے بڑھاپے کی جانب بڑھتے قدموں کی وجہ سے خان کے ذہن میں احساس شکست گھر کرنے لگا۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ اقتدار کے بعد نواز لیگ کا 2018 تک پانچ سالہ اقتدار عمران خان کو ایک گھناؤنے خواب سے کم دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

اب نواز حکومت گرانے کا جنون سر پر سوار ہو گیا۔ کبھی دھاندلی کا رونا، کبھی کرپشن کا شور اور پھر جھولی میں آن گرا پانامہ۔ نجومیوں اور پیروں سے فال نکلوائے۔ چار سال تک دھرنے پہ دھرنا، احتجاج اور جلسے۔ پی ٹی وی پر حملہ اور پارلیمنٹ پر حملے کی تیاری۔ کپتان کو یقین تھا کہ اسٹبلشمنٹ کا دباؤ اور عدلیہ کا دھکا نواز لیگ کی حکومت گرا دے گا۔ ہر دوسرے روز نیا اعلان کہ حکومت آج گری کہ کل۔

باخبر تجزیہ کاروں نے دہائی دینا شروع کر دی کہ دھرنوں اور احتجاجوں کے پیچھے جمہوریت دشمن سازشی خفیہ ھاتھ کارفرما ہیں۔ اور پھر خان کے معتمد خاص اور پی ٹی آئی کے اس وقت صدر جاوید ہاشمی نے سازشی ہنڈیا چوراہے میں پھوڑ ڈالی۔

چار سالہ اقتدار کے بعد نواز شریف کو ایک عدالتی حکم پر وزارت عظمیٰ سے بے دخل کر دیا گیا۔ مگر وفاق اور پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت برقرار۔ اب اقتدار سے باہر میاں کی مقبولیت میں اضافے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ میاں جلسوں میں مشغول، خان کے سیاسی گڑھ پشاور میں بھی بڑا جلسہ کر کے دکھایا۔ اب نیب میاں کو جیل بھیجے یا الزامات سے بری کرے مگر میاں کی حکمت عملی کام کر گئی۔ میاں ن لیگ کو تتر بتر ہونے سے بچانے میں کامیاب رہے۔ اسٹبلشمنٹ کے پیارے ن لیگ میں ہی ٹھہرے رہے بلکہ اسٹبلشمنٹ کے دلارے مشاہد حسین پلٹ کر واپس آگئے۔

مذہبی جماعتوں کا اتحاد ایم ایم اے خان کے راستے کا پتھر بنے والا ہے۔ اے این پی والے بھی سر گرم اور آئندہ سیٹ اپ میں حصہ لینے کو پر امید۔ کے پی کے میں زرداری بھی پی پی پی کے لئے جگہ بنانے کی تگ و دو کرنے لگے۔ یہ سب آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو صوبہ خیبر پختون خواہ سے فارغ کرنے کے اشارے ہیں۔

دوسری طرف خان اور خیبر پختون خواہ کی صوبائی حکومت ایک کے بعد دوسرے سکینڈل میں گھری صفائیاں پیش کرنے میں مصروف۔ ایک ارب درخت لگانے کا سکینڈل، ہیلی کاپٹر کا غیر قانونی استعمال، معدنی کانوں کی غیر قانونی کھدائی، لڑکیوں کے قتل اور جنسی جرائم، مثالی پولیس کی نااہلی کے قصے، تعلیمی اور طبی اصلاحات کا مفقود ہونا۔

اس کے علاوہ گلا لئی کے الزامات اور پیرنی سے شادی کی داستان۔ ریحام خان کی جلد شائع ہونے والی کتاب میں راز افشا ہونے کے خدشات پر ریحام خان کو زبان بند رکھنے کی دھمکیاں۔ مجوزہ الیکشن قریب آنے کو ہیں مگر خان، پی ٹی آئی اور کے پی کے کی حکومت دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور۔

اب کرشمہ سازوں کی نظریں کس پر نظر کرم کرنے والی ہیں۔ کیا خان کا وزارت عظمیٰ پر برا جمان ہونے کا خواب ایک بار پھر چکنا چور ہونے والا ہے۔ اصل نتائج تو الیکشن کے بعد ہی برآمد ہونگے۔ مگر تجربہ کار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی پشت سے طاقتور حلقوں کا ہاتھ آہستہ آہستہ سرک رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2018 کے الیکشن کے نتیجہ میں اقتدار کا کھیل کھیلنے والی ٹیم میں عمران خان کی جگہ بنتی نظر نہیں آرہی۔

One Comment