بھارت اور ایران کی بڑھتی ہوئی قربت

انور عباس انور

ایران کے صدر حسن روحانی بھارت کا دورہ مکمل کرکے واپس ایران تشریف لے جا چکے ہیں اپنے دورہ بھارت کے دوران ایرانی صدر نے بھارت کے ساتھ متعدد معاہدے کیے جن میں توانائی ،دفاع، تجارت اور سکیورٹی کے معاملات شامل ہیں۔اس موقعہ پر دونوں ممالک کی قیادت نے کئی معاہدوں کی دستاویزات کے تبادلے بھی کیے۔ ایرانی صدر کے اس دورہ کا سب سے بڑا معاہدہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار بھارت کو اٹھارہ ماہ کے لیے لیز پر دینے کا معاہدہ ہے۔ ان معاہدوں کا مقصد بھارت اور ایران کا افغانستان میں استحکام لانا بتایا گیا ہے۔ 

اب تک جو چاہ بہار کے معاہدے کے حوالے سے تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں انکا مقصد بھارت کا افغانستان میں قیام امن کے لیے بڑا کردار ادا کرنا ہے۔اور افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں تک تجارتی رسائی بھی شامل ہے۔ دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنے کی حکمت عملی بھی اپنانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ ایرانی بندرگاہ کو بھارت کو لیز پر دینے کے معاہدے کو بھارت کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں بھی اس معاہدے اور ایران اور بھارت میں اس بڑھتی ہوئی قربت پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔اسلام آباد میں بظاہر اس حوالے سے خاموشی ہے لیکن اندرون خانہ بہت سی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔

ایرانی بندرگاہ چاہ بہار اٹھارہ ماہ کے لیے بھارت کو لیز پر دینا کیا ہماری ناکام خارجہ پالیسی کا کیا دھرا ہے؟

ایک معاصر نے حکومت پاکستان کو اپنی خودداری اور خودمختاری کے تقاضوں کے پیش نظررکھ کر اپنی بقاء کی جدوجہد کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس مشورہ میں کہا گیا ہے کہ اس جدوجہد میں ہمیں ہر صورت اپنے علاقائی مفادات کو فوقیت دینا ہے۔اورآج کے حالات میں علاقائی مفادات کا یہی تقاضا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات مستقل طور پر اپنے ہمسایوں چین،ایران،روس اور ترکی سے وابستہ کرلیں۔اس مقصد کے لیے ہمارے پاس سی پیک کا بندھن موجودہے۔ 

ایران کی چاہ بہار بندرگاہ سے چین بھی مستفیض ہورہا ہے۔ پاکستان کے کچھ حلقے ایران کے اس فیصلے سے بدگمان ہورہے ہیں اور ایران کے اس اقدام سے نارضگی کا اظہار بھی کررہے ہیں لیکن یہ ایران کا اندرونی معاملہ ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہم سعودیوں کو خوش کرنے کے لیے ایران کو نظر انداز نہ کرتے،اس کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر دستخط کرکے پیچھے نہ ہٹتے تو شائد چاہ بہار اور گوادر کی بندرگاہیں ’’سسٹر بندرگاہیں‘‘ بناکر دوطرفہ مفادات اور خطے کی ترقی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔لیکن شائد ہماری حکومت کو علاقائی مفادات سے دیگر ممالک کی خواہشات کا احترام زیادہ عزیز ہے۔

خطے کی صورتحال کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم ایران اپنے علاقائی مفادات کو ترجیح دیں اور ایران سے اپنے تعلقات کو بہتر بنائیں کیونکہ ایران کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اور نہ ہی ایران کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایران کو نظر انداز کریں گے تو نتائج بھی بھگتنے پڑیں گے۔ ہمارا کام تو ارباب اقتدار و اختیار کو مشورہ دینا اور صحیح راستے کی نشاندہی کرنا ہے باقی فیصلے تو انہوں نے ہی کرنے ہیں۔

رہا سوال ایران کا بھارت سے باہم شیر و شکر ہونے کا تو اس لمحہ فکریہ پر غور و فکر کرنا پاکستان کا کام ہے ایران کا نہیں کیونکہ جب ہم ہمسایہ اور وہ بھی برادر ملک کے اپنی طرف بڑھائے ہوئے دوستی اور تعاون کے ہاتھ کو نظرانداز کردیں گے تو پھر اسے حق حاصل ہے کہ وہ جس سے چاہے ’’ جھپیاں‘‘ ڈالے ،اس پر ہمیں اعتراض کرنے کا حق نہیں۔

ہمیں اپنی اداؤں پر غور کرنی کی ضرورت ہے، اپنی سوچ و فکر میں تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ہمیں حقائق کا اداراک ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد ہی ہم اپنے اچھے بھلے اور اپنے نفع و نقصان کو سمجھ سکتے ہیں۔

ہر ملک اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیتا ہے لیکن ایک ہم پاکستانی ہیں کہ ہمیں اپنے مفادات کی بجائے دوسروں کے مفادات کا تحفظ عزیز ہوتا ہے۔ قیام پاکستان سے ایوب خان تک ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کا ’’محور و مرکز‘‘ امریکی مفادات کو رکھا۔ درمیان میں ذوالفقار علی بھٹو کے پانچ سالہ دور حکومت میں حقیقی معنوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پاکستان کے مفادات اور اس کے ہمسایہ ممالک اور خطے کی ضروریات پر مبنی خارجہ پالیسی ترتیب دی گئی۔ جس میں روس ، چین ایران سمیت عرب ممالک کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ ہم اپنے فیصلے خود کرتے تھے۔ہاں دوسروں کی بات سنتے تھے مگر مرضی اپنی کیا کرتے تھے۔

آج صورتحال مختلف ہے کہاں وہ دور جب ہم امریکی وزیر خارجہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے تھے۔ لاہور کے گورنر ہاؤس میں اسے دھات کے بنے ایٹم بم کا ماڈل پیش کرکے جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیاکرتے تھے۔ مگر آج ہم نائب وزیر خارجہ یا ترجمان وزرارت خارجہ کے ایک فون پر ڈھیر ہوکر پھر بھی خود کو کمانڈوکہنے پر نازکرتے ہیں۔

ایران کے ساتھ تعلقات میں سردمہری پاکستان کے مفادمیں نہیں گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے سفیر مہدی ہنردوست نے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ گوامریکہ نے ایران پر پابندیا ں لگا رکھی ہیں ،مگر ہماری بھائیوں کی قدامت پسندی سے بنکنگ چینل کھلنے میں تاخیر ہو رہی ہے،جبکہ دیگر ممالک ایران کے ساتھ بنکنگ تعلقات قائم کر رہے ہیں۔پاکستان کے پالیسی سازوں کو پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے ایران کو اعتاد میں لے اور گیس منصوبے کے حوالے سے معاہدے پر عمل کرنے کے اقدامات اٹھائے۔

Comments are closed.