مشاہد حسین سید اب ن لیگ میں

لیاقت علی ایڈووکیٹ

مشاہد حسین سید کا ن لیگ میں شمولیت کا فیصلہ غیر متوقع نہیں ہے۔سینٹ کا رکن بننے کے لئے ن لیگ میں شمولیت ضروری تھی۔ پنجاب میں ق لیگ کے پاس اتنی نشستیں نہیں ہیں کہ انھیں رکن سینٹ منتخب کراسکے لہذا ن لیگ میں ان کی شمولیت ضروری تھی۔

مشاہد حسین سید پارٹیاں بدلنے پر یقین نہیں رکھتے وہ شروع سے وفاداری بشرط استواری کے مطابق ہمیشہ ایک ہی پارٹی کے لائف ممبر ہیں۔ ان کی یہ مدر پارٹی جب ضرورت کے پیش نظراپنا اوپن فرنٹ تبدیل کرتی ہے تو سید صاحب کو ملازمت کے تقاضوں کے زیر اثر نئے سیٹ اپ کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ یہ ان کی پیشہ ورانہ مجبوری ہے
مشاہد حسین سید زمانہ طالب علمی میں لاہور میں پاک کوریا یوتھ فرینڈ شپ ایسویسی ایشن کے نام سے ایک تنظیم چلایا کرتے تھے جس کا مقصد پاکستان اور شمالی کوریا کی یوتھ کے مابین دوستی اور نظریاتی ہم آہنگی پیدا کرنا بتایا جاتا تھا۔ ان دنوں سید صاحب شمالی کوریا کے ڈکٹیر کم ال سنگ کی قیادت اور ان کے نظریہ جوچے کے بارے میں تعریفی مضامین لکھا کرتے تھے اور اسلام آباد میں مقیم شمالی کوریا کے سفارتی نمائندوں سے داد وصول کیا کرتے تھے۔

کچھ لوگ تو الزام لگایا کرتے تھے کہ صرف داد ہی نہیں امداد بھی ہوتی تھی لیکن اس کا ثبوت کبھی کوئی پیش نہ کرسکا۔۔پھر ایک دن خبر آئی کہ وہ اعلی تعلیم کے لئے امریکہ تشریف لے گئے ہیں۔ ان کے مخالفین نے ایک دفعہ پھر الزام لگایا کہ جس یونیورسٹی میں وہ اعلی تعلیم کے لئے گئے ہیں وہ سی۔ آئی ۔اے فنڈڈ ہے۔امریکہ واپسی پر وہ کچھ عرصہ تک پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی رہے۔

جب اسلام آباد سے انگریزی روزنامہ مسلم جاری ہوا تو وہ اس سے وابستہ ہوگئے۔ روزنامہ مسلم کے اجرا کےحوالے سے مخالفین الزام لگاتے تھے کہ پاکستان کے دارالحکومت سے انگریزی اخبار کا اجرا ایرانی خفیہ ایجنسی ساوک کا پراجیکٹ تھا اور سید صاحب کا مسلکی اعتبار سےاہل تشیع ہونا اور ان کے والد کا کافی عرصہ تک ایران میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور کرنل فوجی اتاشی کے طور پر خدمات سر انجام دینا ان کی صلاحیتوں کے علاوہ اضافی خوبیاں تھی جن کی بنا پر انھیں روزنامہ مسلم میں ایڈیٹر کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔

ایم آرڈی کی تحریک کے دوران انھوں نے سندھ کی صورت حال کے بارے میں بہت زبردست مضامیں لکھے تھے۔ وہ میڈیا میں اس وقت بہت نمایاں ہوئے تھے جب انھوں نے کلدیپ نیر کی وساطت سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی خبر چلوائی تھی۔ بعد ازاں وہ جنرل ضیا کی ٹیم کا حصہ بن گئے اور پھر چل سو چل۔ گذشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے وہ کسی نہ کسی صورت ایوان اقتدار کا حصہ ہیں۔

وہ سینٹ میں ہوتے ہیں وہ وفاقی وزیر ہوتے ہیں۔ وہ نواز شریف کی کابینہ میں بھی تھے اور جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھیوں میں بھی ان کا شمار ہوتا تھا۔ گذشتہ کچھ سالوں سے انھوں نے اپنی بھرپورتوجہ چین کی طرف مبذول کر لی ہے۔ پاکستان اور چین کے مابین قریبی تعلقات اورسی پیک منصوبے کے بہت بڑے داعی اور حمایتی ہیں اور ان کا یہ سٹینڈ انھیں ہمارے بہی خواہوں کی نظر میں بہت مقبول اور پسندیدہ بناتا ہے۔

وہ سینٹ کی اس کمیٹی کے بھی چئیرمین ہیں جو سی پیک کے مختلف پہلووں کو مانیٹر کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ ان کو سینٹ کا رکن بنانا شائد ہمارے چینی دوستوں کی بھی خواہش ہو تاکہ ایوان اقتدار میں کوئی قابل بھروسہ فرد ان کے موقف کو پیش کرتا رہے۔

One Comment