ايران ميں صوفی مسلمانوں اور سلامتی کے اداروں کے مابين تصادم

ايران ميں پوليس اور ايک صوفی مسلمان رہنما کے حاميوں کے مابين پير اور منگل کی درميانی شب ہونے والے تصادم کے نتيجے ميں کم از کم پانچ اہلکار ہلاک اور تيس کے قريب زخمی ہو گئے ہيں۔

ايرانی صوفی رہنما نور علی تابندہ کے حاميوں کی پوليس اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں کے نتيجے ميں پانچ پوليس اہلکار ہلاک جبکہ تيس ديگر زخمی ہو

گئے۔ اس دوران کم از کم تين سو افراد کو حراست ميں بھی لے ليا گيا۔ ايران ميں صوفی مسلمانوں اور حکام کے مابين جھڑپوں کا يہ تازہ ترين واقعہ ہے۔

نور علی تابندہ کے درجنوں حامی پچھلے کئی دنوں سے ان کے گھر کے باہر دھرنا ديے بيٹھے ہيں۔ انہيں خدشہ ہے کہ ايران ميں 1979ء کے انقلاب کے بعد نائب وزير انصاف کے عہدے پر فائز رہنے والے نوے سالہ تابندہ کو گرفتار کيا جا سکتا ہے۔ اس خوف کی وجہ جنوری ميں منعقدہ حکومت مخالف مظاہروں کے تناظر ميں متعدد صوفی رہنماؤں کی گرفتارياں ہیں۔ يہ امر اہم ہے کہ دارالحکومت تہران ميں رہائش پذير تابندہ کے بارے ميں مانا جاتا ہے کہ ان کے ملک ميں سرگرم آزاد خيال رضاکاروں کے ساتھ قريبی روابط ہيں۔

تازہ جھڑپيں پير کی صبح شروع ہوئيں، جب نور علی تابندہ کے حاميوں نے ايک شخص کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے تہران کے ايک پوليس اسٹيشن پر دھاوا بول ديا۔ يہ مظاہرين بعد ازاں صوفی پير کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے۔ پوليس نے جب انہيں منتشر کرنے کی کوشش کی، تو اس کے رد عمل ميں تصادم شروع ہو گيا۔

ايران کی نيم سرکاری نيوز ايجنسی فارس کے مطابق ايک شخص نے متعدد پوليس اہلکاروں پر بس چڑھا دی، جس کے نتيجے ميں تين پوليس والے ہلاک ہو گئے۔ حملہ آور کو پير کی شب حراست ميں لے ليا گيا۔ خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق پوليس ترجمان جنرل سعيد منتظر المہدی نے بتايا کہ گاڑی اور چاقو سے حملوں کی دو ديگر وارداتوں ميں بھی دو مزید پوليس اہلکار ہلاک ہوئے۔ پوليس نے اس پيش رفت کے بعد متعلقہ علاقے کی ناکہ بندی کی ہوئی ہے اور وہاں پوليس کی بھاری نفری تعينات ہے۔

يہ امر اہم ہے کہ صوفی  عقیدے کے ماننے والوں  کو کئی ملکوں ميں شيعہ اور سنی مسلمانوں کے حملوں کا سامنا رہتا ہے۔ ايران ميں ان پر دباؤ سابق صدر احمدی نژاد کے دور ميں بڑھا تھا۔ نور علی تابندہ، ايران ميں  2009ء ميں ہونے والے متنازعہ صدارتی اليکشن ميں احمدی نژاد کے مرکزی حريف مہدی کروبی کے حامی تھے۔ کروبی سن 2011 سے نظر بند ہيں۔

DW

One Comment