پاکستانی معاشرہ دھرتی پر بوجھ بن چکا ہے

جمیل خان

ہمارے رویے، عادات و رسومات پر اُس خطے کی آب و ہوا اور معاشی حالات کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے، جہاں ہم بستے ہیں۔ بے آب و گیا ، لق دق بنجر صحرا میں جہاں پانی جیسی لازمی ضرورت عنقاء ہو وہاں کی عادات و رسومات توہمات کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں۔ معیشت چھینا جھپٹی اور لوٹ مار پر مبنی ہوتی ہے اور اخلاقی قدریں اس قدر پست ہوجاتی ہیں کہ شاید حیوانی شعور بھی ایسا پست نہ ہوتا ہو۔

یہ عرب روایت ہے جسے ہمارے ہاں آج بھی عرب پرست اندھے بہروں کی مانند اپنائے چلے جارہے ہیں کہ کھانے کے برتن کوکئی دن کے بھوکوں کی طرح چاٹ چاٹ کر صاف کیا جائے۔ دسترخوان پر ایک دانا بھی ضائع نہ کرنے کا رویہ شدید غذائی قلت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

جبکہ ہندوستان خصوصاً سندھ اور پنجاب میں یہ روایت رہی ہے کہ دسترخوان پر اتنا کھانا چنا جائے کہ سیر ہوکر کھانے کے بعد بھی بچ رہے تاکہ مفلسوں کی بھوک مٹائی جاسکے اور جانوروں کو رزق میسر آسکے۔

جہاں لوٹ مار معیشت ہو اور چھینا جھپٹی، اغوا قتل و غارتگری کا بازار گرم رہتا ہو، موت گلی گلی اپنے شکار ڈھونڈتی ہو، وہاں مذہبی ٹھیکے داروں، توہمات پھیلانے والے پیروں کی دال خوب گلتی ہے۔

قوموں کی ثقافت خطے کے موسم اور جغرافیائی خدوخال سے رفتہ رفتہ تشکیل پاتی ہیں۔ ڈھیلا ڈھالا لباس آج بھی صحرا کی بادِصرصر سے محفوظ رکھتا ہے۔سر پر پگڑی باندھنا بھی دھوپ کی شدت اور ریتیلی ہوا سے محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ تھا۔ خواتین کے لباس پر شیشے کے ٹکڑوں کا کام وسیع و عریض صحرا میں قافلے کے لوگوں لاپتہ ہونے سے بچاتا تھا، اور ان کے لیے ایک طرز کے کنکشن کا کام کرتا تھا، جو آج فیشن کی صورت اختیار کرگیا ہے۔

ہماری غذائیں بھی جغرافیائی خدوخال اور آب و ہوا کی بنا پر ہی ہماری قومی ثقافت کا حصہ بن جاتی ہیں۔

جب ہم ماضی سے چلی آرہی فرسودہ رسومات اور ثقافتی رویوں کو جغرافیے اور آب و ہوا سے جوڑے بغیر نہیں سمجھ سکتے تو پھر آج پاکستان کی نئی نسل کے رویوں کا تجزیہ پچھلے ستر برسوں کے حالات کو سمجھے بغیر کیسے کرسکتے ہیں؟

مثال کے طور پر کراچی میں پچھلے تیس برسوں کےد وران خانہ جنگی کی سی صورتحال تسلسل کے ساتھ برقرار چلی آرہی ہے، کراچی کے بارے میں فیصلہ کن انداز میں تجزیہ کرنے والے بہت سے دانشور کبھی یہاں کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتے، اس لیے کہ وہ یا تو کسی ایک قوم کے نکتہ نظر سے معاملات کو دیکھنے کی وجہ سےتعصب کی دلدل میں گرجاتے ہیں، یاپھر مذہبی عینک سے دیکھنے کی وجہ سے ان کی نظر کبھی حقائق تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔

اسی طرح پشتون خطے میں پچھلے تیس سال کے دوران جس قدر قتل و غارت گری ہوتی رہی ہے، اس کا اس قوم کی نئی نسل کے ذہنوں پر کس قدر گہرا اثر ہوا ہوگا، اگر کوئی درمند دل سوچے تو آنکھ بھر آئے گی۔

سندھ میں پچھلے چالیس برسوں سے لوگوں کو محض ریاست مخالف سوچ رکھنے کی وجہ سے اغوا کرنے کے بعد قتل کرکے پھینکنے کی روایتِ بد پر نگاہ ڈالی جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔

بلوچستان پر تو فوج کشی کا آغاز تقسیم ہندوستان کے فوراً بعد سے شروع ہوگیا تھا، یہ خطہ تو مستقل بدامنی، غربت اور استحصالی رویوں کا شکار چلا آرہا ہے، ذرا آنکھ بند کیجیے اور ایک بلوچ کی جگہ خود کو تصور کرکے دیکھیے، شاید آپ ان کے درد کا صفر اعشاریہ ایک فیصد محسوس کرپائیں، لیکن یہ درد بھی آپ کا ذہن ماؤف کردے گا۔

اور پنجاب کی بربادی تو تقسیم ہندوستان کے وقت ہی لکھ دی گئی تھی، یہ دراصل ہندوستان کی تقسیم نہیں تھی، بلکہ پنجاب کی تقسیم تھی، محض ہندوستان میں نفرت کی بنیاد رکھنے کی خاطر پنجاب کے لاکھوں لوگوں کو ایک انجینئرڈ فساد کرواکے قتل کیا گیا۔ افسوس تو یہ ہے کہ جیسے پنجاب کے لوگوں نے خطے کا دفاع کرنے والے پورس کی قربانی کو فراموش کرکے ایک ظالم اور جابر سکندر کو اپنا ہیرو مان لیا، اسی طرح مذہب پرستی کی کھائی میں گر کر لاکھوں لوگوں کے قتل عام کی حقیقت سے نظریں چرالیں۔

افسوس تو یہ ہے کہ آج کا پنجابی جو پنجابی نہیں رہا بلکہ الباکستانی ہوچکا ہے، جب وہ اپنے پورکھوں کے ساتھ ہوئے ظلم کی وجوہات کو سمجھنے کے بجائے ہندوؤں اور ہندوستان سے نفرت کو ہوا دیتا ہے، تو وہ پاکستان کی دیگر قومیتوں کے درد کو کیا خاک محسوس کرے گا۔

ہر خطے میں انسان بستے ہیں، بُرے اور بدترین حالات و واقعات ان انسانوں کو حیوانی سطح پر گرنے پر مجبور کرتے ہیں، اور خوشحالی اور وسائل کی فراوانی شعوری ارتقاء میں مددگار بن کر حیوانی سطح سے اوپر اُٹھ کرسوچنے کی راہ ہموار کرتی ہے۔

ہمیں اپنے خاندان، برادری، لسانی و ثقافتی کمیونٹی، قوم اور ملک کے ساتھ وفادار رہنے کے ساتھ ساتھ خود کو اس بات پر بھی آمادہ کرنا ہوگا کہ ہم انسان ہیں اور دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والا بھی ہمارے جیسا ہی انسان ہے۔ کمزور، احتیاج رکھنے والا اور محبت و خلوص کا متلاشی، جیسے کہ ہم ہیں۔

کیا ہم اپنے خاندان، برادری، قوم اور ملک کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ انسان بن کر سوچنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے؟

اگر ہم ایسا نہیں کرسکتے تو یہ رویہ ہمیں کائنات کا دشمن بنا دے گا، اس لیے کہ کائناتی عناصر بلاغرض و غایت ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں اور اس سیارے پر زندگی کو برقرار رکھنے میں کسی تعصب کے بغیر اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔

آپ سندھی، بلوچ، پنجابی، پٹھان، مہاجر یا اردو اسپیکنگ، شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی وغیرہ وغیرہ رہیے…. ہمیں کوئی اعتراض نہیں…. لیکن آپ کا سندھی ہونا بلوچ، پنجابی، پٹھان، اردو اسپیکنگ کے لیے مسرت کا باعث بنے، آپ پنجابی ہیں تو آپ کی جانب سے اس سیارے پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے محبت کا پیغام پہنچنا چاہیے، پٹھان ہوں یا اردو بولنے والے ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں…. آپ کی قومی، لسانی، مذہبی، مسلکی یا نظریاتی شناخت آپ کے اندر عاجزی پیدا کرنے کے بجائے کبر پیدا کرتی ہے تو پھر یاد رکھیے کہ آپ اور آپ کی قوم اس دھرتی پر بوجھ بن جائیں گے۔

دھرتی اپنے بوجھ کو زیادہ عرصے اپنی پشت پر نہیں اُٹھائے رکھتی، اس لیے کہ یہ بوجھ غلیظ ہوکر دھرتی کے لیے ناسور بننے لگتا ہے، چنانچہ دھرتی پر بوجھ بن جانے والی قومیں اپنی تمام ثقافت، رسومات، نظریات اور عقائد کے کبر سمیت دھرتی میں دفن ہوجاتی ہیں۔

یاد رکھیے کہ پاکستانی معاشرہ بحیثیت مجموعی دھرتی پر بدترین بوجھ بن چکا ہے۔

Comments are closed.