ہندوستانی شہزادی جو انگلستان کی خواتین کی تحریک میں پیش پیش تھی

آصف جیلانی 

انگلستان میں خواتین کے حق رائے دہی کے لئے تحریک کی کامیابی کا صد سالہ جشن 6فروری کو بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ 6فروری 1918کو پچاس سال کی طویل تحریک کے بعد برطانوی پارلیمنٹ نے پہلی بار تیس سال سے زیادہ عمر کی خواتین کو ووٹ کا حق دینے کا قانون منظورکیا تھا۔ خواتین کی یہ تحریک جو’’سفراجیٹ‘‘کہلاتی تھی 1867میں شروع ہوئی تھی جس کی روح رواں ایملین پینک ھرسٹ تھیں۔ خواتین کے ووٹ کے حق کے لئے اس تحریک کے دوران، مظاہروں کے ساتھ ساتھ، پوسٹ بکس نذر آتش کئے گئے ، گرجا گھروں میں بم کے دھماکے کئے گئے ، خواتین نے بھوک ہڑتال کی، پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور بڑی تعداد میں خواتین جیل گئیں۔ 

اس تحریک کی کامیابی کے جشن مناتے وقت لوگ اُس ہندوستانی شہزادی کو بھول گئے جو اس تحریک میں پیش پیش تھیں۔ نام ان کا شہزادی صوفیہ دلیپ سنگھ تھا جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں، جو تحریک کے دوران قیمتی فر کا کوٹ پہنے ،کندھے پر ایک بڑا سا تھیلا ڈالے اور بینر لئے لندن کی سڑکوں پر مظاہرو ں میں آگے آگے رہتی تھی۔

شہزادی صوفیہ دلیپ سنگھ نے 18نومبر 1910کو جو بلیک فرائی ڈے کہلاتا ہے مسز پینک ہرسٹ کے ساتھ چار سو خواتین کے جلوس کی قیادت کی جو پارلیمنٹ تک گیا۔ اس موقع پر مظاہرین اور پولس میں جھڑپیں ہوئیں جن مین ڈیڑھ سو خواتین زخمی ہو ئیں۔ پھر 1911میں شہزادی صوفیہ نے اس ہندوستانی خواتین کے دستہ کی قیادت کی جس نے ساٹھ ہزار’’سفراجیٹ ‘‘خواتین کے کورونیشن جلوس میں شرکت کی۔ 

شہزادی صوفیہ دلیپ سنگھ انگلستان کی خواتین کی اس تحریک میں بھی پیش پیش تھیں جو ٹیکس کی ادائیگی کے خلاف تھی ۔ اس تحریک کا نعرہ تھا نو ووٹ، نو ٹیکسشہزادی صوفیہ نے اپنے پالتو کتے کی
لایسنس فیس ادا کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا تھا کہ جب خواتین کو ووٹ کا حق نہیں تو ان پر ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتا۔ 14شلنگ کا جرمانہ ادا کرنے سے انکار پر ان کی ہیرے کی انگوٹھی ضبط کر کے نیلام کر دی گئی ۔ ا ن کی ایک ساتھی نے یہ انگوٹھی خرید کر ان کے حوالہ کر دی۔ 

برطانوی حکومت سخت پریشان تھی کہ اس ہندوستانی شہزادی سے کیسے نبٹا جائے، جو ملکہ وکٹوریہ کے چہیتے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی بیٹی ہے اور ہندوستان میں سکھوں کی آخری سلطنت کے فرما نروا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی ہے اور اپنے والدمہاراجہ دلیپ سنگھ کی طرح ملکہ وکٹوریہ کی چہیتی ہیں ۔ ملکہ وکٹوریہ نے ان کا 200پونڈ کا الاونس مقرر کیا تھا اور ہمپٹن کورٹ میں ایک تین منزلہ کوٹھی رہائش کے لئے دی تھی۔ 

شہزادی صوفیہ دلیپ سنگھ ، 8اگست 1876میں لندن کے امراء کے علاقہ بیلگریویا میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے مہاراجہ دلیپ سنگھ تھے ۔ دس سال کی عمر میں شہزادی صوفیہ اپنے والد اور تین بہنوں کے ساتھ لندن سے غائب ہوگئیں۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ اپنے بچوں کے ساتھ خاموشی سے ہندوستان واپس جانا چاہتے تھے لیکن عدن کی بندرگاہ پر پکڑے گئے اور واپس لندن لائے گئے۔ 

سنہ1903میں شہزادی صوفیہ نے اپنی بہن بمبا کے ساتھ نئے بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کے دلی دربار میں شرکت کی تھی۔ اس کے بعد 1907میں دوبارہ ہندوستان گئیں اور امرتسراور لاہور میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کی ۔ اسی دوران ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک کے رہنماوں ،گوکھلے اور لالہ لاجپت رائے سے ملاقاتیں کیں۔ 

پہلی عالم گیر جنگ کے دوران شہزادی نے ریڈ کراس میں شمولیت اختیار کی اور، انگریزوں کی فوج میں شامل جو ہندوستانی فوجی زخمی حالت میں برائیٹن لائے جاتے تھے ان کی طبی نگہداشت اور تیمار داری کی۔

شہزادی صوفیہ دلیپ سنگھ نے دو جنگیں دیکھیں اور ہندوستان کو آزاد ہوتے دیکھااور 22اگست 1948کو 71 سال کی عمر میں سوتے میں انتقال کر گئیں۔ انہیں لندن کے گولڈرس گرین کی لاش بھٹی میں نذر آتش کیا گیا۔ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی کہ ان کی راکھ ہندوستان پر نچھاور کر دی جائے۔ 

شہزادی صوفیہ کے والد مہاراجہ دلیپ سنگھ کی بھی داستان عجیب و غریب ہے۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ، ہندوستان میں سکھوں کی سلطنت کے آخری مہاراجہ تھے۔1839میں ان کے والد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد ، یکے بعد دیگرے ، تین بھائیوں نو نہال سنگھ، دھیان سنگھ اور شیر سنگھ کے قتل کے بعد1843میں پانچ سال کی عمر میں مہاراجہ دلیپ سنگھ تخت نشین ہوئے تھے۔ لیکن انگریزوں نے انہیں پندرہ سال کی عمر میں تخت سے اتار کر سکھ سلطنت کا خاتمہ کردیا اور انہیں انگلستان جلاوطن کر دیا۔

مہاراجہ دلیپ سنگھ ابھی پنجاب میں تھے کہ ان کے عیسائی اتالیق ، بھجن لال کے اثر اور دباؤ میں آکر عیسایت قبول کر لی تھی۔ انگلستان میں اس زمانہ میں ملکہ وکٹوریہ کا راج تھا۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ نے انگلستان آنے کے بعد مشہور ہیرا کوہ نور ، ملکہ وکٹوریہ کو تحفہ میں پیش کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی بناء پر وہ ملکہ وکٹوریہ کے چہیتے بن گئے۔ ملکہ انہیں پیار سے پنجابی مہاراجہ کہتی تھیں اور دربار میں وہ ’’ بلیک پرنس ‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ 

مہاراجہ دلیپ سنگھ کی پہلی شادی، ایک جرمن بینکر میولر کی بیٹی بمبا سے ہوئی ، جس کی والدہ حبشہ کی ایک خاتوں تھیں جو میولر کی داشتہ تھیں۔بمبا میولر کو قاہرہ میں عیسائی مشنریوں نے پالا تھا۔ بمبا میولر سے مہاراجہ دلیپ سنگھ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں ۔ شہزادی صوفیہ سب سے چھوٹی تھیں۔بمبا میولر کے انتقال کے بعد مہاراجہ دلیپ سنگھ نے ہوٹل میں کام کرنے والی ایک ملازمہ ویدرل سے شادی کی جس سے ان کے د و بیٹیاں ہوئین۔ بتایاجاتا ہے کہ ویدرل کے ساتھ مہاراجہ دلیپ سنگھ سینٹ پیٹرس برگ گئے جہاں انہوں نے زارِ روس سے ملاقات کی اور درخواست کی کہ وہ ہندوستان پر حملہ کر کے انہیں ان کی پرانی سلطنت کے تخت پر بحال کردیں۔ زار روس نے یہ درخواست منظور نہیں کی۔ 

تینتیس۳۳ سال تک عیسائی رہنے کے بعد مہاراجہ دلیپ سنگھ نے جلاوطنی کے دوران سکھ مذہب کا مطالعہ کیا اور دوبارہ سکھ مذہب اختیار کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن برطانوی حکومت نے اجازت نہیں دی ۔ انہیں عیسایت قبول کرنے ، سکھ سلطنت کے تخت سے معزول کئے جانے اور ملکہ وکٹوریہ کی عنایات کے باوجود انگلستان میں جلا وطنی پر سخت تاسف تھا اسی بناء پر انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ خاموشی سے ہندوستان جانا چاہا لیکن عدن میں پکڑے گئے۔ عدن ہی میں انہوں نے ایک تقریب میں سکھ مذہب دوبارہ اختیار کیا۔

انگلستان واپسی کے بعد برطانوی حکومت نے انہیں یورپ کے سفر کی اجازت دی۔ اور اسی دوران، 1893 میں پیرس کے ایک ہوٹل میں ۵۵ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ کی خواہش تھی کہ ان کی میت ہندوستان لے جائی جائے اور وہاں آخری رسومات اد کی جائیں لیکن برطانوی حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی اور یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ انہیں انگلستان میں لیوڈین کے گرجا گھر کے احاطہ میں ان کی بیوی بمبا کے پہلومیں دفن کیا گیا۔ 

رنجیت سنگھ کی سکھ سلطنت کا یہ آخری تاجدار جس نے خوشنودی کے لئے کوہ نور ہیرا ملکہ وکٹوریہ کو تحفہ میں دیا ، وطن سے دور اپنی تمام خواہشوں کے دم توڑنے کے بعدمایوسیوں کے اندھیرے میں گم ہوگیا۔ 

Comments are closed.