رام راجیہ رتھ یاترا، ایک نئی شاطرانہ چال

آصف جیلانی 

ہندوستان کی حکمران جنتا پارٹی کی سر پرست کٹر ہندوقوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ13فروری سے مسمار شدہ بابری مسجد کے شہر ایودھیا سے تامل ناڈو کے شہر رامیشورم تک، رام راجیہ رتھ یاترا نکالنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔یہ یاترا 39دن تک جاری رہے گی اور 23مارچ تک چار ریاستوں سے گذر ے گی۔ یاترا کے دوران ، رام مندر کے مسئلہ پر چالیس جلسے ہوں گے۔ اتر پردیش کے کٹرہندو قوم پرست وزیر اعلی یوگی ادتیا ناتھ ایودھیا میں وشو ہندو پریشد کے صدر دفاتر سے جہاں رام مندر کی تعمیر کے لئے کام ہورہا ہے،رتھ یاترا کاآغاز کریں گے۔ یاترا مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک اور کیرالا سے گذرے گی۔ یاترا کا رتھ جو بمبئی میں تیار کیا گیا ہے مسمار باربری مسجد کی جگہ مجوزہ رام مندر کے ماڈل کے طرز پر ہے ۔ 

رتھ یاترا کا اہتمام ، سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کے بارے میں برسوں پرانے مقدمہ کی دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد کیا گیا ہے۔ تاکہ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوراں سیاسی دباؤ رکھا جائے ۔اس مقدمہ کی سماعت کے لئے چیف جسٹس دیپک مصرا کی سربراہی میں خاص بینچ تشکیل دی گئی ہے جس میں جسٹس عبد النظیر کے ساتھ جسٹس اشوک بھوشن شامل ہیں۔

رام راجیہ رتھ یاترا کا سب سے بڑا مقصد در اصل بھارتیا جنتا پارٹی کا اگلے سال ہونے والے عام انتخابات ،ہندووتا اور رام مندر کی تعمیر کے نعرہ پر لڑنا ہے۔ اس سلسلہ میں حکمت عملی نہایت شاطرانہ انداز سے مرتب کی گئی ہے ۔ ایک طرف شمالی ہندوستان میں رام مندر کی تعمیر کے جذباتی مسلہ کی آگ بھڑکانا ہے اور دوسری جانب اس کا اہم پہلو جنوبی ریاست تامل ناڈو کو اپنے پنجہ میں جکڑنا ہے جہاں اب تک بھارتیا جنتا پارٹی اقتدار پر قبضہ کرنے میں سپھل نہیں رہی ہے۔ 

پھر یہ رتھ یاترا ، کرناٹک سے گذرے گی جہاں اپریل میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہو نے والے ہیں۔ اس ریاست میں کانگریس حکمران ہے اور عام انتخابات سے پہلے ، بھارتیا جنتا پارٹی اس ریاست سے کانگریس کو اکھاڑ پھینکنے کے جتن کر رہی ہے۔ 

اٹھائیس 28سال قبل، بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشن ادڈوانی نے رتھ یاترا نکالی تھی جو بھارتیا جنتا پارٹی کے لئے اہم موڑ ثابت ہوئی تھی اور ملک میں ایک سیاسی قوت کے طور پر ابھری تھی۔ 
پچھلے عام انتخابات میں برسر اقتدار آنے کے بعد سے بھارتیا جنتا پارٹی نے منظم طریقہ سے ہندووتا کی آگ برابر سلگائے رکھی ہے ۔ گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور خوف و ہراس کی فضا قایم رکھی ہے۔ ان ریاستوں میں جہاں بھارتیا جنتا پارٹی بر سر اقتدار ہے گؤ رکھشکوں کی اس مہلک مہم کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ جو لوگ گؤ رکھشکوں کے حملوں کا نشانہ بنے خود ان کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ 

نریندر مودی کو اس بات کا شدید احساس ہے کہ انہوں نے ’’ اچھے دن‘‘ کا نعرہ لگا کر عوام کو خوشحالی کا جو خواب دکھایا تھا وہ چکنا چور ہو گیا ہے ، نوٹ بندی کی وجہ سے عام لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ اس لئے اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کے کئے اگلے عام انتخابات میں سارازور ہندووتا پر ہوگا اور اس کا تمام تر نشانہ مسلماں بنیں گے۔ 

رام راجیہ رتھ یاترا کے ساتھ ساتھ بھارتیا جنتا پارٹی نے ہندووتا کی حکمت عملی کے تحت ، مسلمانوں کو خایف کرنے اور کٹر ہندووں کا دل موہ لینے کے نہایت منظم مہم شروع کی ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ونئے کٹیار نے کھلم کھلا کہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑ دینا چاہئے ، انہیں پاکستان یا بنگلہ دیش چلا جانا چاہئے ۔ یہ آخر ہندوستان میں کیا کر رہے ہیں؟انہوں نے کہا ہے کہ مسلمانوں نے مذہب کے نام پر ہندوستان تقسیم کیا ہے اور انہوں نے ایک الگ علاقہ لے لیا ہے اب انہیں ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ 

ونئے کٹیار بجرنگ دل کے بانی صدر ہیں اور فیض آباد ایودھیا سے لوک سبھا کے ممبر ہیں۔ کٹیار ، 1980اور1990 میں بابری مسجد مسمار کر کے رام مندر کی تعمیر کی تحریک میں پیش پیش تھے اور 1992میں بابری مسجد کی مسماری کے مقدمہ میں ملزم ہیں۔ 

اس سے پہلے ونئے کٹیار نے کہا تھا کہ تاج محل کی جگہ ہمارا تیجو محل مندر تھا۔ اورنگ زیب نے اسے مسمار کر کے اس جگہ تاج محل تعمیر کر کے قبرستان بنا دیا ہے ۔ کٹیار کو تاریخ کا علم نہیں۔ تاج محل اورنگ زیب نے نہیں بلکہ شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بہت جلد تاج محل کو تیج مندر میں تبدیل کردیں گے کیونکہ یہ شیو کا مندر تھا۔ 

ونئے کٹیار بھارتیا جنتا پارٹی کے اہم رہنما ہیں ۔ پارٹی کی طرف سے کسی روک ٹوک کے اور تردید کے یہ بیانات بے حد اہم ہیں ، کیونکہ بھارتیا جنتا پارٹی نہایت مرکزی پارٹی ہے اور اس کی پالیسی کے برخلاف کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے ، لہذا عام خیال یہ ہے کہ کٹیار پارٹی کی شہہ پر مسلمانوں کے خلاف یہ ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔ 

بھارتیا جنتا پارٹی کے ریاستی اسمبلی کے ایک ممبر سنگیت سوم نے دعوی کیا ہے کہ تاج محل اُن غداروں نے تعمیر کیا تھا جو ہندووں کا صفایا کرنا چاہتے تھے۔ 

یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب سے اتر پردیش میں بھارتیا جنتا پارٹی کے یوگی ادتیا ناتھ کی حکومت قائم ہوئی ہے ، جب سے ریاست میں ہندو مسلم فسادات میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال اتر پردیش میں 822فسادات ہوئے جن میں ایک سو گیارہ افراد ہلاک ہوئے اور دو ہزار تین سو چوراسی افراد زخمی ہوئے۔ان فسادات کی وجہ سے مسلمانوں کی اقتصادی صورت حال پر تباہ کن اثر پڑا ہے اور عدم تحفظ کا احساس شدید ہوا ہے۔ وزیر مملکت برائے امور داخلہ ہنس راج اھیر نے لوک سبھا میں اعتراف کیا کہ پچھلے سال سب سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات اتر پردیش میں ہوئے۔ 

One Comment