تاپی گیس منصوبہ ۔ دُرست آیدکی توقع TAPI


محمدحسین ہنرمل 

دنیا کے ممالک میں آپسی تعلقات انسان دوستی یا مذہبی رشتوں کی بجائے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔ ایک زمانے میں سوویت یونین امریکہ کا مضبوط ترین حریف سمجھا جاتا تھاجس کی نہ صرف وسط ایشیائی علاقوں پر اجارہ داری تھی بلکہ افغان خطے کے وسائل اور تزویراتی اہمیت کیش کرنے کا بھی اسے شدیدچسکا لگا تھا۔ اہل کتاب اور غیراہل کتاب کے نام پر امریکہ نے اپنے پراکسیزکے ہاتھوں دس سالہ طویل مزاحمت کے بعدا پنے اس حریف کو بالآخر ناکوں چنے چبوا دیئے ۔

وسط ایشیائی علاقے آزاد ریاستیں بن گئیں جبکہ افغانستان ایک ایسا تر نوالہ بن گیاجس کونگلنے کیلئے سب سے زیادہ رال پاکستان کی ٹپکتی ہے۔نائن الیون کو اب سترہ سال بیت گئے ہیں لیکن افغانستان میں امن بحال نظرآتاہے اور نہ ہی مظلوم افغانوں کیلئے یہ جنت نظیر خطے میں تبدیل ہوگیاہے ۔ جن طالبان کاامریکہ نے چندہفتوں میں صفایاکرنے کی بڑھک ماری تھی ، آج ساٹھ فیصد سے زیادہ علاقے پرانہی طالبان اپنا قبضہ جمارکھاہے۔ حالات کے تیور یہی بتارہے ہیں کہ اہمیت کا حامل یہ خطہ ماضی کی بجائے اس وقت امریکہ کے لئے مزید رغبت کاباعث بن رہاہے ۔ ایک طرف اس کے پرانے حریف روس میں دوبارہ سراٹھانے کی سکت پیداہوگئی ہے تو دوسری طرف چین ایک معاشی سپرپاور کے طور پر اپنا لوہا منوارہاہے ۔

اب جب ایک حریف کی بجائے امریکہ کے لئے چین کی شکل میں دوسرا حریف بھی پیدا ہوا تو امریکہ کو کیاپڑی ہے کہ وہ وسائل سے مالامال اور جغرافیائی اہمیت رکھنے والی اس سرزمیں کی تھانیداری سے دستبردار ہوجائے ۔افغانستان کے ہرات میں پچھلے دنوں’’ تاپی‘‘ گیس پائپ لائن کے نام سے شروع ہونے والا منصوبہ بھی امریکہ کی منشا سے چلنے والا قدرتی گیس کامنصوبہ ہے ۔ قدرتی گیس کی خریدوفروخت کے حوالے سے ترکمانستان ، افغانستان ، پاکستان اور انڈیا کے بیچ ہونے والامعاہدہ کو اختصارکے طورپر تاپی لکھاجاتاہے۔

ترکمانستان وسطی ایشیاء کی وہ مسلم ریاست ہے جس کوقدرت نے بے شمار دیگر معدنیات کے علاوہ قدرتی گیس کے ذخائر سے بھی خوب مالا مال کیاہواہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت صرف ترکمانستان میں 24.6کھرب مکعب فٹ قدرتی گیس کے ذخائر ہیں جو دنیا میں قدرتی گیس پیدا کرنے والاچوتھا بڑا ملک سمجھاجاتاہے۔ پاکستان کی طرف سے تیئیس سال پہلے شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی دوسری دوروزارت عظمیٰ میں اس منصوبے کی یاداشتوں پر ترکمانستان میں دستخط کیے تھے جو 2006 میں شروع ہونے والا تھالیکن افغانستان کے اضطرابی اور خون ریز فسادات کی وجہ سے طویل تعطل کانذرہوگیا ۔

چوبیس24اپریل2008کو بھی افغانستان ، پاکستان اور بھارت نے اس منصوبے کے ایک اور معاہدے پر دستخط کیے اور پھر چودہ نومبر2011 کو جی ایس پی اے منصوبے کے تحت اسلام آباد میں اس بابت گیس کی خرید وفروخت کے معاہدے پر اسلام آباد میں دستخط کیے گئے تھے ۔اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح آج سے تین سال پہلے 13دسمبر2015میں ترکمانستان کے شہر میری میں ہوا جس میں مذکورہ چاروں ملکوں کے سربراہاں نے شرکت کی تھی۔اسی دن ہی اس کے شیئرہولڈنگ معاہدے پربھی دستخط ہوئے جس کی روسے ترکمانستان کا اس میں پچاسی فیصد شیئر جبکہ باقی تینوں ملکوں ( افغانستان ، پاکستان اور بھارت) میں سے ہر ایک کا پانچ پانچ فیصد شیئر ہوگا۔

ابھی چار دن پہلے جمعے کو اس منصوبے کے پہلے حصے کی افتتاحی تقریب افغان صوبے ہرات میں منعقد کی گئی جس میں افغان صدر اشرف غنی کے علاوہ پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، ترکمن صدر قربان علی محمدوف اور بھارت کے خارجہ امور کے ریاستی مشیر جواد اکبر نے شرکت کی۔اس دوران تاپی ممالک کے سربراہان کی طرف سے یہ باور کرایاگیا کہ یہ انرجی کوریڈورمیں تیل ، ریلوے ، روڈ اورمواصلات کا نظام بھی شامل ہے جو دنیا بھرکے سرمایہ کاروں کو محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرے گا۔

توقع کی جارہی ہے کہ یہ وسیع البنیاد منصوبہ 2019میں مکمل ہوگا۔ ابتدائی طور یہ گیس پائپ لائن ستائیس ارب مکعب میٹر سالانہ گیس فراہم کرسکے گی جس میں سے دو ارب افغانستان اور ساڑھے بارہ ارب مکعب میٹر گیس پاکستان اور بھارت حاصل کرسکے گی۔تاپی منصوبے کے ذریعے امریکہ ایک طرف روس کا اثر ورسوخ وسط ایشیاء میں محدود کروانا چاہتاہے جبکہ دوسری طرف بھارت کومستفید کروانامقصود ہے جو خطے میں چین کے مقابلے میں اس کا سب سے بڑا حلیف ہے۔ اسی طرح خطے کا یہ تھانیدار اپنے حلیف بھارت کواس قابل بنانا چاہتاہے کہ بھارتی حکومت چین کی ’’ون روٹ ون بیلٹ‘‘ پالیسی کا بھی مقابلہ کرے۔

دس ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے کے تحت اٹھارہ سو چودہ کلومیٹرز طویل پائپ لائن ترکمانستان سے افغانستان کے علاقے ہرات ، فراح ، ہلمند ، کندھار اور پھر پاکستان کے کوئٹہ اور ملتان کے راستے بھارتی پنجاب کے فاضلکاتک پہنچائی جائے گی۔اگرچہ تاپی منصوبے کے پائپ لائن کی لاگت پہلے سات اعشاریہ چھ ملین ڈالر ز تھالیکن اس کا حالیہ تخمینہ دس ملین ڈالرز بتایا جاتاہے جس کا 735 کلومیٹرحصہ افغانستان کے شمالی شہر ہرات، فراح ، ہلمند اور کندھار صوبے سے گزرے گی جبکہ 800کلومیٹر پاکستان کے حدود میں سے گزرے گی ۔

اس گیس پائپ لائن کی راہداری معاوضے (ٹرانزٹ فیس ) کے بارے میں یہ بھی کہاجاتاہے کہ اس مد میں پاکستان ہرسال افغان حکومت کودوسوپچاس ملین ڈالر جبکہ بھارتی حکومت پاکستان کویہی رقم کی ادائیگی اداکرے گی۔ مسلسل توانائی بحرانوں کی زد میں رہنے والے پاک ، افغان اور بھارت جیسے ملکوں کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے تاپی ایک اہم منصوبہ ہے ۔توانائی کے شعبے میں تاپی ممالک کایہ منصوبہ افغانستان کی توانائی کے شعبے میں ایک متبادل ہوگاجو افغانستان کا ایران پر توانائی کے شعبے میں انحصار کم کرے گا کیونکہ اس وقت افغانستان کی تیس فیصد توانائی کی ضروریات ایران سے پورے ہورہے ہیں۔

اسی حساب سے پاکستان کو بھی اس وقت مجموعی طورپرتوانائی کے شعبے میں چارہزار میگاواٹ جبکہ دو بلین کیوبک فٹ روزانہ قدرتی گیس کی کمی کا سامناہے جو تاپی منصوبے کی کامیابی کے بعد اس بحران پر قابو پاسکتاہے ۔دوسری طرف اگر دیکھا جائے تواس منصوبے کوکامیاب بنانے کیلئے حفاظتی اقدامات نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی لمحہ فکریہ دکھائی دیتاہے۔افغانستان میں اس کی سیکورٹی کے حوالے سے اگرچہ افغان حکومت نے ابھی سے سات ہزار سیکورٹی فورس کی تشکیل دینے کا دعویٰ کیا ہے لیکن پھر بھی وہاں پر نہ صرف افغان طالبان اس کیلئے بوقت ضرورت مشکلات پیداکرسکتے ہیں۔ بلکہ ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیمیں بھی اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرے گی۔

بہرکیف اس وسیع البنیاد منصوبے پرکام کاحالیہ آغاز جنوبی ایشیاء کے توانائی بحران سے دوچار ملکوں کیلئے انتہائی نیک شگون ہے جس میں اگرچہ ’’ دیرآید‘‘ کے مصداق اس میں پچیس سال تاخیر ضرور ہوئی ہے ،خدا کرے کہ یہ درست آید ‘‘بھی ثابت ہوجائے۔

Comments are closed.