کینیڈا میں سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی  کی برکات

آصف جاوید

اقوامِ متّحدہ کے ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کے مطابق ، کینیڈا دنیا کے ان پہلے دس خوشحال  ممالک میں شامل ہے ، جو بلند تر معیارِ زندگی کے حامل ہیں۔  کینیڈین شہریوں کی فی کس آمدنی 50ہزار امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔   کینیڈا ایک فلاحی ریاست اور کثیر الثقافت معاشرہ ہے، جہاں دنیا کے 193 ممالک  کے تارکین وطن اور  40 سے زیادہ مذاہب کے پیروکار  ،تمام تر نسلی و ثقافتی تنوّع کے ساتھ باہم شیرو شکر ہو کر رہتے ہیں۔

معاشرتی تنوّع ،کینیڈا کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس ہے۔کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز  کینیڈاکے عظیم فلسفہ ِ اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔ کینیڈا ایک عظیم ملک ہے۔ جِس کے تمام باشندے بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت مساوی شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے۔ عوام کی حکومت ، عوام کی حکمرانی ہے۔  اشرافیہ نام کی  کی کسی مخلوق کا کوئی وجود نہیں ہے۔

  کینیڈا کوئی خیالی جنّت (یوٹوپیا )نہیں، ایک زندہ حقیقی فلاحی ریاست ہے۔ کینیڈا میں ہر شہری کو زندگی کی  تمام  تر بنیادی سہولتیں بلا امتیازمیسّر ہیں۔     شہریوں کے لئےمعیار زندگی کا ایک کم سے کم  لیول متعیّن ہے۔   کینیڈا دنیا کا وہ عظیم ترین ملک ہے جہاں معاشرہ طبقاتی طور پر تقسیم نہیں ہے،   کینیڈا میں دولت  اور وسائل کی ناہموار تقسیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔

کینیڈین معاشرے میں امیر و غریب کی کوئی سماجی تقسیم نہیں ہے۔ یہاں امیروں اور غریبوں کے لئے الگ الگ نظام یا سہولتیں نہیں ہیں۔  غریب کا بچّہ بھی اس ہی پبلک اسکول میں پڑھتا ہے، جہاں امیر کا بچّہ پڑھتا ہے، غریب کا علاج بھی اس ہی اسپتال  میں ہوتا ہے جہاں امیر کا علاج ہوتا ہے۔ ، غریب بھی اس ہی محلّے میں رہتا ہے، جہاں امیر رہتا ہے، غریب کی غربت اور امیر کی امارت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔  حکومت  کی آمدنی کا انحصار ٹیکس وصولی  پر ہے۔ 19 سال سے اوپر عمر کے ہر شہری کو ٹیکس ریٹرن جمع کروانا پڑتا ہے،  دولتمند کو زیادہ اور غریب کو کم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔  پھر یہی ٹیکس  کاروبارِ حکومت ، سوشل سیکیورٹی ، سوشل ویلفیئر، سوشل ڈیولپمنٹ ،  اور انفرااسٹرکچر  کی ترقّی   پر خرچ ہوتا ہے۔

کینیڈا  کے عوام کی خوشحالی   کا راز ، کینیڈا کے سوشل ڈیموکریٹک  نظامِ حکومت  اور فری مارکیٹ اکانومی میں پنہاں ہے۔  سوشل سیکیورٹی ، سوشل ویلفیئر، اور سوشل ڈیولپمنٹ ، کینیڈا کے نظامِ  حکومت کی اساس ہے، جب کہ معیشت کی اساس فری مارکیٹ اکانومی ہے۔

کینیڈا ایک  جمہوری  ملک ہے،  جہاں  منتخب حکومتیں آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے شہریوں کے لئے ہمہ وقت خدمات انجام دیتی ہیں، کینیڈا میں ادارے آزاد و خودمختار ہوتے ہیں۔

کینیڈا میں  شہریوں کی  فلاح و بہبود کے  کئی مربوط نظام بیک وقت کام کرتےہیں۔   جِن کے ذریعے انسانی برابری، دولت کی منصفانہ تقسیم ، قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم ،  سماجی انصاف،  اقتدار میں منصفانہ شراکت، مقامی شہری حکومتیں، خود مختار ادارے،  آزاد منڈی ،  سماجی بہبود کا موثر نظام، کرپشن سے پاک معاشرہ، احتساب کا کڑا نظام،  فوری اور موثّر نظامِ انصاف، سوشل  سیکیورٹی اور  سوشل ڈیولپمنٹ  کے منصوبہ جات   کا تسلسل قائم رکھا جاتا ہے۔کینیڈا میں نظامِ حکومت  اور ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ ہر سال پوری دنیا سے  5 لاکھ تارکین وطن  کینیڈا   کی معیشت اور سماج   میں جذب ہوجاتے ہیں، سب کو   زندگی کی بنیادی سہولتیں فراخ دلی اور عزّت و احترام سے پیش کی جاتی ہیں۔

میں گذشتہ 20 سالوں سے کینیڈا کا شہری ہوں۔ میرے بچّوں نے یہیں  ہائی اسکول مکمّل کیا، یہیں یونیورسٹی کی تعلیم مکمّل کی اور یہیں ملازمتیں  شروع کیں اور  یہیں شادیاں کیں، یہیں گھر آباد کئے۔  ہم میاں بیوی بحیثیت ماں اور  باپ اپنے بچّوں کی سرپرستی  اور کفالت کرتے رہے،۔

مگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو   میرے بچّوں کو ریاست نے ہی  پالا پوسا ہے۔ ریاست نے     بچّوں پرورش میں مکمّل  اعانت کی ہے،  بچّوں کی کفالت کے لئے18  سال کی عمر تک ہر بچّے کے لئے ماں کے اکاؤنٹ میں ایک مناسب رقم حکومت   ہر مہینہ فراہم کرتی رہی ہے۔   ہائی اسکول تک مفت تعلیم د یتی رہی ہے،   ہم نے بچّوں کے لئے کبھی نہ کاپی خریدی، نہ  کتابیں ، نہ پنسل قلم،  نہ کیلکیولیٹر، اور   نہ کبھی  بستہ خریدا،  بچّے جب یونیورسٹی پڑھنے کے لئے گئے تو یونیورسٹی کی مہنگی تعلیم کے لئے حکومت نے معاونت کی اور بچّوں کو سٹوڈینٹ لون  اور سکالر شِپ فراہم کیں،  تاکہ بچّے سکون سے اپنی تعلیم مکمّل کریں اور ملازمت ملنے کے بعد قرضہ اتار دیں۔

حکومت نے بچّوں کی  صحت  کا بہت زیادہ  خیال رکھا ہے،باقاعدگی سے  تمام ویکسی نیشن، سالانہ چیک اپ اور سکریننگ ٹیسٹ،   بیمار پڑنے پر مکمّل علاج معالجہ مہیّا کیا، کبھی ایک ڈالر ڈاکٹر کی فیس کی مد میں خرچ نہیں کیا، دوائیں بھی ٹریلیم ڈرگ پلان کے تحت ملتی رہیں (جس میں ماں باپ کی آمدنی کے لحاظ سے ایک معمولی رقم  بطورڈی ڈکٹ ایبل دینا پڑتی ہے)،بچّوں کے لئے پارک ، پلے گراؤنڈ،  اسپورٹس ارینا، سوئمنگ پول، اِ نڈور اور آؤٹ ڈور کھیلوں کی سہولتیں لائبریریاں، کمیونٹی سینٹر زمیں ہر طرح کی سہولتیں،   سب کچھ حکومت نے مفت   فراہم کیں۔

حکومت نے اپنے انتظام کے تحت دورانِ تعلیم  بچّوں کو جیب خرچ کمانے کے لئے جز وقتی سٹوڈینٹ جابز  بھی مہیّا کیں ،  سفر کرنے کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ کے  نام پر شاندار ٹرانزٹ سسٹم مہیّا کیا ،  جس میں معمولی کرائے پر بس، ٹرین، سب وے، لائٹ ریل، سب کچھ شامل ہے۔   جب 20 سال پہلے ہم کینیڈا آئے تو شروع کے چند ماہ  ایک گھر کے بیسمنٹ اپارٹمنٹ میں کرایہ دار رہے،پھر پہلے ہی سال   صرف 5 فیصد ڈائون پییمنٹ  دے کر اپنا پہلا گھر خرید لیا،  ڈھائی لاکھ ڈالر کا گھر خریدنے کے لئے صرف  ہمیں 15 ہزار ڈالر کی ضرورت پڑی، باقی رقم   کے لئے بنک نے مارٹگیج دے دی ، مارٹگیج کی قسط میں اصل زر اور سود دونوں شامل ہوتا تھا، ، 20 سال میں وہ رقم ادا بھی ہوگئی اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا، اور اب وہ گھر ایک ملین ڈالر  مالیت کا پیڈ آف گھر ہے، ،   پہلی کار  بھی زیرو پرسنٹ فنانسنگ پر لی تھی۔

کیسے 7 ڈالر فی گھنٹہ کی جاب سے کینیڈا میں زندگی شروع کی؟،  کیسے  ترقّی کی؟، کیسے کینیڈا میں آسودہ حال زندگی گزاری؟ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا، زندگی کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوئے، کسی چیز ، کسی تفریح سے محروم نہیں رہے۔  ہر سال چھٹّیوں میں امریکہ، یورپ،  کیریبئین ممالک جاتے رہے۔  دنیا کے 176 ممالک میں کینیڈین پاسپورٹ پر ویزا کی ضرورت  ہی نہیں ہوتی۔

مجھے یاد ہے، جب 17 سال پہلے میں اپنی پہلی  ملازمت سے  لے آف ہوا  تھاتو، 9 مہینے ایمپلائیمنٹ انشورنس کے پیسوں سے گھر چلتا رہا تھا،     جب جون  2008 میں حکومت نے سیکنڈ کیرئیر پروگرام  شروع کیا تو مجھے خط بھیجا، جس میں  مجھے کسی  بھی اسکل ٹریڈ کو سیکھنے کے لئے 28 ہزارڈالر فیس کی مد میں   دینے کی بھی پیشکش کی  گئی تھی۔  مگر اس وقت تک میں اپنا کاروبار سیٹ کرچکا تھا، اور خوشحال  زندگی گزار رہاتھا۔

 جب    سے میں بیمار پڑا  ہوں تو مجھے فیملی ڈاکٹر کے علاوہ،  ذیابیطس اور گردوں کے ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں  شاندار علاج،  ڈائیگنوسٹک ، دوائیں، نرس، ڈائیٹیشن ، تھراپسٹ  وغیرہ سب  کچھ مفت فراہم کئے جاتے ہیں۔ ہزاروں ڈالر کے انجکشن اور دوائیں ڈرگ پلان کے ذریعے فراہم کی  جا چکی ہیں۔  شدید بیماری کے زمانے میں ڈاکٹر نے جب  منسٹری آف ٹرانسپورٹیشن کو میرا ڈرائیونگ لائسنس  معطّل کرنے کی صلاح دی ، تو  حکومت نے میرے سفر کے لئے ٹیکسی کا انتظام ،ٹرانس ہیلپ کے ذریعے  کیا   ۔

  ٹرانس ہیلپ کو میں، بس کے کرائے کے برابر رقم ادا کرتا  تھااور وہ مجھےمیں  شاندار ٹیکسی سے سفر کرواتے تھے۔  شکر ہے کہ علاج کے بعد میرا ڈرائیونگ لائسنس بحال ہوگیا ہے۔    جب میں 65 سال کی عمر پر پہنچوں گا تو ریٹائرڈ ہوجاؤں گا، بقیہ زندگی گھر بیٹھے پنشن اور اولڈ ایج سیکیورٹی ملتی رہے  گی۔   کینیڈا دنیا  کی واحد فلاحی ریاست ہے ، جہاں سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی ،  دو نوں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔ 

غریب کوئی نہیں ہوتا، محروم کوئی نہیں رہتا،    لیکن   اگر آپ کے پاس سرمایہ یا ہنر ہے تو آپ جتنی چاہیں دولت کما لیں، کوئی پابندی نہیں ہے، کیونکہ یہاں امیر اپنی ذات کے لئے امیر ہوتا ہے، کسی امیر کی  دولت کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ  پیدا نہیں ہوتا ہے ۔   اور یہ سب سوشل ڈیموکریسی اور فری مارکیٹ اکانومی کی برکات ہیں، جس نے کینیڈا کو ایک عظیم فلاحی ریاست بنانے میں  اہم کردار ادا کیا ہے۔

11 Comments