انتہاپسند نظریات کے خاتمے کے لیے نصابی تبدیلیاں کی جارہی ہیں

سعودی عرب کے وزیر تعلیم الاعیسیٰ کا منگل کے روز ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’وزارت تعلیم انتہاپسندانہ نظریات سے لڑنے کے لیے نصابی کتب میں تبدیلیاں لانے پر کام کر رہی ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ تعلیمی نصاب پر کالعدم اخوان المسلمون کا اثر ختم کیا جائے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں اس طرح کی تمام کتب پر پابندی عائد کر دی جائے گی اور اس گروپ سے ہمدردی رکھنے والوں کو ان کے عہدوں سے بھی برطرف کر دیا جائے گا۔

کئی دہائیوں تک اسلام کے نام پر انتہا پسند وہابی و سلفی نظریات کا زہر انڈیلنے کے بعد اب سعودی عرب کے سلفی اپنے ہی نظریات سے تائب ہو رہے ہیں۔

ستمبر میں سعودی عرب کی تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں اعلان کیا گیا تھا کہ اخوان المسلمون سے رابطے رکھنے والے تمام مشتبہ اہلکاروں کو برطرف کر دیا جائے گا۔مزید یہ بھی کہا گیا تھا کہ حکومتی ناقدین کے خلاف یونیورسٹیوں میں بھی آپریشن کیا جائے گا۔

رواں ماہ کے آغاز پر سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے عناصر سعودی اسکولوں پر ’حملہ آور‘ ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب داعش اور القاعدہ کے ساتھ ساتھ اخوان المسلمون کو بھی دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔

سعودی ولی عہد اسلام کی ’اعتدال پسند تشریح‘ سامنے لانے کے حوالے سے پہلے ہی متعدد اقدامات اٹھا چکے ہیں۔ چند روز پہلے محمد بن سلمان کا ایک امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ سعودی عرب اصل سعودی عرب نہیں ہے۔

اسلام کی سخت گیر تشریح کا آغاز 1979ء کے بعد شروع ہوا، ’’میں ناظرین سے کہوں گا کہ اصل سعودی عرب دیکھنے کے لیے اپنا اسمارٹ فون اور گوگل استعمال کریں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی کا سعودی عرب آپ آسانی سے تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ تب وہ دیگر خلیجی ممالک کی طرح تھا، ’’خواتین ڈرائیونگ بھی کرتی تھیں، مووی تھیٹر بھی تھے اور  ہر جگہ خواتین کام کرتی بھی نظر آتی تھیں۔‘‘۔

DW/News Desk

Comments are closed.