اکثریتی اور عسکریتی جمہوریت

ولید بابر ایڈووکیٹ

بھلے وقتوں میں تو ابراہم لنکن جمہوریت کی تعریف “عوام کی حکومت ‘ عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے” کر گئے تھے مگر چوں کہ موصوف کا تعلق کسی ترقی پذیر ملک سے نہ تھا بلکہ وہ ایک جدید صنعتی ملک کے باشندہ تھے اس لیے ان کی تعریف مغرب زدہ زہنوں کو تو بھا سکتی ہے ،اس کا تعلق ترقی پذیر ممالک کے زمینی حقائق سے بالکل بھی میل نہیں کھاتا اس لیے افریقہ تا ایشاء اور عرب تا عجم ایسی مکروہ حکومت نہ کبھی قائم ہوئی نہ دور تلک اس کے کوئی امکانات نظر آرہے ہیں۔

اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک کے گھاک قسم کے دانشوروں نے اپنے زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مدلل اور جامع نظام حکومت تشکیل دیا ہے جو پچھلے کئی سالوں سے کامیابی سے استوار ہے اور جمہوریت کی نسبت آج تک اس کی کوئی خباثت سامنے نہ آئی۔ اب اگر دو جار نوجوانوں کو مغربی نظام اس قدر پسند ہے اس پر مرے جا رہے ہیں تو مغرب دفا کیوں نہیں ہو جاتے ان کے لیے پورے ملک کا نظام تو تبدیل ہونے سے رہا انہیں خود بھی تو خیال ہونا چاہیے اساس نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے مگر ان بے ہودہ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم بات کر رہے تھے مغربی جمہوریت کی مشرقی قسم کا جو نہ صرف یہاں کی اپنی پیداوار ہے بلکہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے اصول بقاء کے تحت ملکی حالات کے سانچے میں ڈھل کر زیادہ موافق شکل اختیار کر چکی ہے۔ویسے تو مغربی و مشرقی جمہوریت اپنے جوہر میں ہی مختلف ہیں اور فرق ہی فرق  ہے۔

مغرب میں عوام پارٹی (لیڈر)کو ووٹ دیکر خود کو سبکدوش کر دیتے ہیں مگر مشرق میں الیکشن جیسے لغویات کا زیادہ رواج نہیں اسمیں وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع ہے اس لیے تو پاکستان میں 70 سالوں میں سے 32 سال صرف تین محب وطن معماروں ایوب ،ضیاء اور مشرف صاحب نے اپنے ناتواں کندہوں پر پوری قوم کا بوجھ اٹھائے رکھا اور کبھی اف بھی نہ کی مگر پھر بھی سر پھری عوام اپنا مفاد عزیز نہ رکھ سکے اور الیکشن الیکشن کی رٹ لگا دے تو بہلانے کے لیے الیکشن کروا دیے جاتے مگر اس کا قطعاً مطلب نہیں کہ خود غرض ہو کر ایک طرف بیٹھ جائے بندہ۔

آخر بچے کی آگ مانگنے کی ضد پر اسے آگ تو نہیں دے دی جاتی صرف ٹارچ سے بہلایا جاتا ہے اس لیے بفرض محال الیکشن ناگزیر ہو بھی جائیں تو ضدی بچے کی طرح  ان پڑھ عوام کا ہر فیصلہ من و عن تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ ووٹنگ اور الیکشن کے فرسودہ نظام سے چھلنی شدہ لیڈر اور پارٹی کو مزید چھانٹا جاتا ہے تاکہ ملکی مفادات کے عین مطابق پولش شدہ لیڈر تیار کیا جا سکے۔ اب آپ خود ایمان داری کے ساتھ بتائیے کہ کیا بھولا موچی،چھوٹو لوہار، گاما کسان اور چچو مزدور ملکی معاملات “باریک بینی” سے سمجھ سکتے ہیں؟ کیا ان کے اور جگا چوہدری، تڑنگ خان، مست راجہ اور سخی سیٹھ کے ووٹ برابر ہو سکتے ہیں؟

اسی طرح کیا پی ایچ ڈی ، ڈاکٹر ،ماہر ین آئین اور فلیڈ مارشل کے ووٹ اور بھولے،گامے،چھوٹو اور چچو کے ووٹ میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے؟ کیا متذکرہ بالا جہلا کی نسبت پڑھے لکھے نفیس ماہرین کو ایک نسبت لاکھ یعنی ایک لاکھ گامے ووٹ =ایک فیلڈ مارشل ووٹ، (فیلڈ مارشل محض مثال ہے کچھ اور نہ سمجھنا شروع ہو جائیے گا)عین قرین انصاف نہیں؟

ایک لاکھ گامے (عام) ووٹ برابر ہے ایک فیلڈ مارشل (ماہر) ووٹ کے ہی مشرقی جمہوریت ہے۔ضروری نہیں کے مشرقی جمہوریت ہمشہ ہی نافذاعمل رہے یہ اکثر اس وقت حرکت میں آتی ہے جب عام ووٹ کی سطح حد درجہ پست ہو یا وہ”ملکی مفاد “ سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔اب ملکی سرحدوں کی محفوظ تو فوج ہوتی ہے اس لیے فوج سے بہتر ملکی مفاد کی تشریح اور کون کر سکتا ہے؟ اس لیے مشرقی جمہوریت وقت کے ساتھ تبدیل ہو کر عسکری جمہوریت ہو گئی۔

عسکری جمہوریت میں ملک کے 98 فیصد ان پڑھ ،جاہل ،گوار قسم کے لوگ غلط فیصلہ کر دیں تو اس کی درستگی کے لیے 2 فیصد پڑھے لکھے ،ماہر اور دانشور فیلڈ مارشل (جنرل)موجود ہوتے ہیں آخر خفیہ اداروں، اعلیٰ عدلیہ اور طاقتور فوج کا کام ملکی حفاظت ہی تو ہے۔اس لیے حالیہ سینٹ الیکشن پر بڑبڑانے کی کیا تک ہے؟

اگر ملکی مفاد میں کسی ادارے نے انیس بیس کردیا تو کیا قیامت برپا ہو گئی؟ اپنے لیے تھوڑی کیا ملک کے لیے کیا اور ملک ہے تو تبی آپ لوگوں کو گھروں میں بیٹھ کر جمہوریت اور آمریت کی فضول بحثیں یاد آتی ہیں۔پاکستان مشرق میں ہے اور مشرق میں عسکری جمہوریت ہے جسے بہت تکلیف ہو مغرب دفا ہو جائے بے ہودہ ۔۔۔۔


One Comment