سویڈن میں بڑھتی ہوئی اسلامی بنیاد پرستی

آمنہ اختر۔ سویڈن

جو بھی شخص اپنی مذہبی کتب کی ہر تحریر کو سچ اور حتمی مانے اسے بنیاد پرستی یا انگریزی میں فنڈامینٹلزم کہتے ہیں اوراس   کے ماننے والے کو بنیاد پرست ۔اس کو سمجھنے کےلیے  مذہب اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کی مثال دی جاسکتی ہے۔

دوسرے الہامی مذاہب کے برعکس اسلام ایک سیاسی مذہب ہے جو دنیا میں اپنا غلبہ چاہتا ہے۔ اور غلبہ پانے کی یہی خواہش اسے مہذب دنیا میں چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی۔

پاکستان نے تو اپنے قیام کے بعد مذہبی انتہا پسندی کی طرف سفر شروع کر دیا تھا۔ اور غیرمسلموں کو آہستہ آہستہ دیوار سے لگانا شروع کردیا تھا اور آج پاکستان ایک بدترین مذہبی فرقہ پرست ریاست بن چکا ہےجہاں فرقہ وارنہ مذہبی تعلیمات نصاب کا حصہ ہیں۔

ان مسلمان بنیاد پرستوں نے کبھی معاشرے کی بہتری کی کوئی بات نہیں کی صرف فتوے لگائے ہیں اور شریعت کے نام پر انہوں نے انسانوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ان گنت فرقے ہیں اور عوام مسائل کی چکی میں پس رہی ہے ۔

ان لوگوں کی مذہبی بنیاد پرستی انہیں اپنے ملک میں تو روزگار نہیں دے سکی لہذا جب یہ تلاش روزگار کے لیے مغربی ممالک جاتے ہیں تو پہلے تو ان ممالک کے سیاسی و معاشی نظام سے مالی سکون  اور جدید دنیا سے لطف اندوز ہو تے ہیں اور جب ان کے بچے جوان ہونے لگتے ہیں تو انہیں خدا کی یاد آجاتی ہے اور اپنا مذہبی حق ما نگتے ہیں جو  سویڈن نے دیا  بھی ہے ۔

سویڈش حکومت نے  مذہبی آزادی  کے قانون کے مطابق مسجدیں بھی بنائیں ۔اور ان کے مطالبے پر حلا ل کھانے بھی، حلال اور حرام کی بحث سے ہٹ کر ان کے پیٹوں تک پہنچائے۔ ان کے ملکوں سے مذہبی پیشوا بھی منگوا کر دیے۔ پھر ان کے مطالبے پر انہیں مدرسے بنانے کی اجازت بھی دی۔

مگر اب یہ لوگ مدرسوں کے  ساتھ ساتھ شریعت نافذ کرنے پر بضد ہونے لگے ہیں اور اپنے معاملات میں شریعت کےقوانین لاگو کروانا چاہتے ہیں جیسےمسلمان میاں بیوی میں طلاق ، مُلا، کے ذریعے اور حق مہر اسلامی مقرر کروانا۔بغیر کسی رکاوٹ کے مسجدیں جہاں چاہیں تعمیر کرنے کی تجویز اور آذان کے لیے سپیکر کا مطالبہ کرنا شروع کر دیئے ہیں۔

سرکاری سویڈش سکولوں میں مُلاسے مسلم بچوں کو علیحدہ تعلیم دینے کا حق، لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علیحدہ سوئمنگ پول، حجاب کو مسلمان بچیوں پر لاگو کروانا  وغیرہ ۔ جبکہ حلال گوشت سکول کے فری کھانوں کا حصہ بن چکے ہیں ۔ یہ بنیاد پرست اس سماج میں ضم ہونے کی بجائےاپنی علیحدہ بستیاں بھی بسانا شروع ہو گئے ہیں۔ جہاں یہ شریعت کے نام پر جبر کا ایک نظام قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مسلمان بنیاد پرست سویڈش سسٹم کے جمہوری عمل او ر انسانی قوانین سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی مذہبی بنیاد پرستی کو تو منوا لیتے ہیں مگر خود اسی ملک کی انسانی  آزادی   کےقوانین کو پامال کرتے ہیں ان کے ایسے رویوں سے سویڈن میں اسلام مخالف تحریکیں چل رہی ہیں اس میں سب سے بڑی مخالف سیاسی پارٹی نیشنلسٹ ایس ڈی ہے جو پارلیمنٹ میں بڑے مینڈیٹ کے ساتھ 2014میں داخل ہوئی ۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ مسلمان  بنیاد پرست بائیں بازو  کی جماعتوں کی ہمدردیاں بھی لے لیتے ہیں پھر انہی کے پارٹی منشور کے خلاف جاتے ہوئے دوسرے  مذہبی گروپس کے انسانی حقوق کی نفی بھی کرتے ہیں ۔

سویڈن میں انسانی حقوق کی  بہت سی تنظیمیں ہیں جو ان کی مذہبی انتہا پسندی کو جانتے ہوئے سکولوں اور سیاسی پلیٹ فارم  پر   بچیوں اور بچوں کو فری اسلامی اسکولز   کے اندر ہونے والی جنسی تفریق کو نہ صرف سامنے لا رہی ہیں بلکہ ان سکولوں کے فنڈز بھی ختم کروانے جیسے معاملات زیر  غور ہیں ۔ اور نو عمری کی شادی کے خلاف  بچیوں کے سکولوں میں پرنسپل اور سکول سٹاف کی تربیت بھی کرتی ہیں۔تاکہ وہ بروقت متاثرہ  نو عمر لڑکی کی مدد کر سکیں ۔

غالباً آپ کے ذہن میں مذہبی بنیاد پرست سے صرف مرد کی تصویر بن رہی ہو گی مگر اب مجھے بڑے دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس میں بہت بڑی تعداد اسلامی خواتین بنیاد پرستوں کی بھی موجود ہے ورنہ گھروں میں لڑکے اور لڑکی کی جنسی تفریق پر پرورش کون کرتا ۔

اپ نے کینیڈا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ وغیرہ کی اسلام بچاؤ تحریکوں میں برقعوں میں لپٹی عورتیں دیکھی ہوں گی جو شریعت لاگو کروانے کے نعرے لگاتی ہیں ویسی ہی خواتین اب سویڈن میں بھی نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کے ردعمل میں جب ان کے مخالف نیشنلسٹ یا عیسائی سیاسی جماعتیں مقبول ہورہی ہیں اور جب یہ اقتدار میں آگئے تو ان کی بنیاد پرستی کے تحفے عام مسلمان کو بھی بھگتنے پڑیں گے ۔ بلکہ ان سیاسی جماعتوں نے یہ مطالبہ شروع کر دیا ہے کہ ان مسلمانوں کو ان کے ملکوں میں واپس بھیجا جائے۔

2 Comments