جام ساقی کی سیاسی جدوجہد

ڈاکٹر توصیف احمد خان

جام ساقی پاکستان میں عوامی جدوجہد کرنے والوں میں سر فہرست ہیں۔ غیرطبقاتی سماج کے لیے جہد مسلسل کرنے والے جام ساقی نے کبھی مفاہمت نہیں کی اور نہ ہی کبھی اپنے نظریہ اور اصولوں کو قربان کیا۔ وہ پاکستان کی عوامی تاریخ کا ایک ایسا کردارہیں جو آ ج نہیں توکل اس دھرتی میں انقلاب کا تسلسل ثابت ہوں گے۔

جام ساقی 31 اکتوبر 1944ء کو تھرپارکر کی تحصیل چاچھرو کے ایک چھوٹے سے گاؤں جھنجھی میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین جرمن فوج کو شکست دینے والی تھی۔ ابھی جام چند ماہ کے ہی تھے کہ اس وقت دنیا بھر کے جمہوری اتحاد کی فتح سامنے نظرآرہی تھی۔ بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ رکنے والا تھا۔ جام کی پیدائش سے ٹھیک ایک صدی قبل 1844ء میں جنرل ہوش محمد شیدی وطن کے لیے گوریلا جنگ لڑرہے تھے۔ انھوں نے خون سے وطن کی آزادی کا لافانی نعرہ مرویسوں مرویسوں سندھ نہ ڈیسوں بلندکیا جو جام کا نعرہ بن گیا۔

جام کا بچپن جو تھرپارکرکا بچپن تھا جو ویسے ہی جدید دور سے ایک صدی پیچھے تھا۔ بچپن کی سب سے پرانی دھندلی سی یادیں اپنی یادوں میں کہیں گڈمڈ اخباروں کی شہہ سرخیاں ہیں اور اخبار بیچنے والوں کا غوغا ہے۔ ابا کے چار دوست گھنٹوں ملکی اور غیر ملکی سیاست پر گپ لڑاتے رہتے۔ لینن نے مزدوروں کی فوج بنائی ہے اور مزدوروں کا راج بھی بنادیا ہے، روس، لینن اور انقلاب کی بات ان بھولے بسرے دنوں میں پہلی بار کان میں پڑی تھی۔

جام کو ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ پہلے دن اسکول میں کیا ہوا تھا۔ دراصل جام کے والد محمد بچل گاؤں کے پرائمری اسکول کے استاد تھے اور سماجی کارکن بھی تھے۔ اپنی ساری تنخواہ سماجی کاموں پر خرچ کردیتے تھے۔ جام نے 1961ء میں تقریری مقابلے میں وزیراعظم لیاقت علی خان کو موضوعِ بحث بنایا اور ایک کامیاب مقررکے طور پر سامنے آئے۔ پرائمری کے ایک ریٹائرڈاستاد عنایت اﷲ جن کا تعلق زیر زمین کمیونسٹ پارٹی سے تھا جام کی تقریر سے متاثر ہوئے۔ اس ملاقات نے جام کی زندگی کی حقیقی راستہ متعین کردیا۔ 1962ء میں لوک بورڈ اسکول چھاچھرو سے میٹرک کرنے کے بعد حیدرآباد آگئے جہاں انھوں نے گورنمنٹ کالج میں فرسٹ ایئر آرٹس میں داخلہ لیا۔

اپنے استاد کے ذریعے ان کا کمیونسٹ پارٹی سے رابطہ ہوا اور ساتھی عزیز سلام بخاری سے ملاقات ہوئی۔ جلد ہی ون یونٹ کے خلاف پمفلٹ لکھا جس کی قیمت 10پیسے تھی۔ چند ماہ بعد اس پر پابندی لگی جس سے کتابچے کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ بلوچ رہنما غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے بزن بلوچ نے داخلہ لیا تو بزنجو نے پیغام بھیجا کہ میرے بیٹے پر توجہ دی جائے اور اس سے کام لیا جائے۔

سنہ 1963ء میں جام اور ان کے ساتھیوں نے ایک دستخطی مہم چلائی۔ اس مہم کے تین نکات تھے۔ پہلے نکتہ یہ تھا کہ مادری زبانوں میں امتحانات لیے جائیں، دوسرا یہ کہ انٹر سائنس میں پاس ہونے والے طالب علموں کو متعلقہ شعبوں میں سیٹیں بڑھا کر داخلے دیے جائیں یا نئے کالج قائم کیے جائیں اور ہر سال فیس نہ لی جائے بلکہ طلباء وطالبات داخلے کے وقت جو فیس جمع کراتے ہیں وہ تمام عرصے کے لیے ہو۔1964ء میں مدیجی ہاری کانفرنس سے واپسی پر حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی۔

دس نومبر 1964ء کو طلباء کنونشن منعقد ہوا۔ یوسف لغاری کنوینیئر اور جام ساقی جنرل سیکریٹری چن لیے گئے۔ جام ساقی کے والد 1964ء کے اواخر میں جام سے ناراض ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا سائنس کے مضامین میں مہارت حاصل کرے لیکن سائنس کی طرف سے جام کی توجہ بالکل بٹ گئی تھی۔ جام کے والد نے انھیں خط لکھا کہ یا توسائنس پڑھو ورنہ گاؤں واپس آجاؤ۔ جام اگر گاؤں واپس جاتے تو سیاسی کام نہ کرپاتے۔ جام نے کام کی تلاش شروع کردی۔ اسی اثناء میں کبھی اپنے دوست نجم الدین میمن کے گھر کھانا کھاتے تو کبھی محض پکوڑوں پر گزارہ کرتے۔

انھیں واپڈا کے مقامی دفتر میں کام مل گیا۔ وہ شام کے وقت یونیورسٹی یا ہوسٹل چلے جاتے تاکہ طلبہ سیاست کے کام کو جاری رکھ سکیں۔ ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں پہنچ جاتے۔ 1966ء گزرا جارہا تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو تاشقند معاہدے سے اختلاف کی بناء پر ایوب کابینہ سے باہر آچکے تھے۔

ان ہی دنوں حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کنونشن کے لیے عنایت کاشمیری نے تجویز پیش کی کہ اس کنونشن میں بھٹوکو آنے کی دعوت دی جائے۔ جام ساقی بھٹو سے ملے۔ بھٹو صاحب نے اعتراف کیا کہ ایوب حکومت ان کی دشمن ہے اس لیے فیڈریشن کے کارکنوں کو بہت تنگ کرے گی۔ بھٹو کی بات پر جام نے کہا کہ ہم مکرنے والے نہیں۔ بھٹو نے اپنی تقریر میں ہندوستان، اسرائیل اورایوب حکومت کے خلاف بات کی مگر ون یونٹ کی مخالفت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ بھٹو نے مختلف ذرائع سے رابطہ کیا کہ انھیں فیڈریشن کے سالانہ اجلاس کا مہمان خصوصی بنایا جائے۔

اس موقع پر جام کا جواب یہ تھا کہ آپ ایوب خان کی مخالفت کررہے ہیں اور اعلان تاشقند کے مخالف ون یونٹ کے حامی ہیں۔ ہماری جماعت معاہدہ تاشقند کی حامی اور ون یونٹ کی مخالف ہے۔ بھٹو نے وعدہ کیا کہ وہ اپنی تقریر میں جمہوریت کی حمایت کریں گے اور ون یونٹ اور معاہدہ تاشقند پر خاموش رہیں گے مگر جام اور ان کے ساتھی پھر بھی تیار نہیں ہوئے لیکن میر رسول بخش تالپرکے اصرار پر بھٹو کو اپنے جلسہ کا مہمان خصوصی بنانے پر تیار ہوگئے۔

جلسے کے بعد رسول بخش پلیجو کے گھر پر بھٹو نے جام ساقی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ جام میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا اور بھٹو یہ احسان واقعی نہیں بھولے۔ صدرِ پاکستان بنتے ہی جام ساقی کوگرفتارکرلیا ۔ جام نے دانشور ندیم اختر، ہدایت حسین اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا انڈس ہوٹل میں پہلا کنونشن منعقد کیا۔ جام ساقی صدر، ندیم اختر سینئر نائب صدراور میر تھیپو جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔

اس کے ساتھ ہی جام ساقی پر جیل کے دروازے کھل گئے۔ وہ 1966ء سے 1969ء تک ہر سال جیل گئے۔ 4 مارچ 1967ء کی طلبہ تحریک سندھ کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلرکوغیر قانونی طور پر ہٹادیا گیا تو طلبہ کی احتجاجی مہم شروع ہوگئی۔کمشنر مسرور حسن نے طلبہ پر بے پناہ تشدد کیا اور درجنوں دیگر رہنماؤں کی طرح جام ساقی کو بھی گرفتارکرلیا گیا۔

جام نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو ون یونٹ تحریک میں تبدیل کردیا۔ ندیم اختر جیل کے قیام کی یادیں بیان کرتے ہیں۔ ہمیں چارکمروں والی ایک بیرک میں رکھا گیا۔ یہ وہی بیرک تھی جن میں نام نہاد پنڈی سازش کیس کے ملزمان سجاد ظہیر اور فیض احمدفیض کو رکھا گیا تھا۔ حیدرآباد جیل میں غلام محمد لغاری، رسول بخش پلیجو، یوسف تالپور، مسعود نورانی، راجہ عبدالقادر اور اقبال ترین وغیرہ شامل تھے۔

سنہ1968ء میں میر تھیپوگرفتار ہوئے تو جام اس وقت کے ڈپٹی کمشنر عثمان علی عیسانی سے ملے۔ ڈپٹی کمشنر نے جام کو پیشکش کی کہ اگر تمہیں کلاس ون کی نوکری چاہیے تو حکومت تیار ہے، اگر تم سی ایس ایس کا صرف امتحان دو تو حکومت تمہیں ڈپٹی کمشنر لگا دے گی۔ جام نے کہا کہ سائیں میں کس سے کہوں گا کہ کرسی پر بیٹھ کر عوام کی خدمت کرنی ہے۔ ان ہی دنوں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد صالح قریشی نے انھیں بلایا اورکہا کہ اگر ڈھاکا یا پشاور یونیورسٹی داخلہ لینے پر رضامند ہو جاؤ تو حکومت تمہیں 10 ہزار روپے ہر مہینے دینے کے لیے تیار ہے۔ جام نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ جام ان پیشکشوں کو ٹھکرانے کے بعد ایم اے نہ کرسکے۔ 1985ء میں جام نے حیدرآباد جیل سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔

تین 3 مارچ 1968ء کو جام کی سکھاں سے شادی ہوگئی۔ سکھاں نے جام سے بہت محبت کی۔ جب 1978ء میں جام گرفتار ہوئے اور انھیں مار دیے جانے کی افواہیں پھیلیں تو سکھاں نے کنویں میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دیدی، 1970ء میں ملک میں انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے جو سندھ اور پنجاب میں کامیابی حاصل کی تھی انتقال اقتدارکے پارلیمانی اصول کو تسلیم کرنے سے انکارکیا۔ عوامی لیگ جس نے انتخابات میں مکمل اکثریت حاصل کی تھی کو اقتدار کی منتقلی کی مخالفت کی۔ بھٹو نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کیا۔

یحییٰ خان نے اجلاس ملتوی کیا۔ مشرقی پاکستان میں فوج کشی کے خلاف بنگالی عوام کی جدوجہد کامیاب ہوئی۔ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے بھارتی کمانڈر کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔اس سارے عرصے میں کمیونسٹ پارٹی، اس کے سیاسی، ثقافتی، ادبی، کسان، خواتین اور طلبہ محاذوں کے ارکان قید وبند یا روپوشی کے اذیت ناک دور سے گزرے۔

جام کہنے لگے کہ میں نے اپنے طور پر سندھ بھر میں مظاہرے کرنے کی کوشش کی تو اکثر دوستوں نے منع کیا۔ انھوں نے کہا کہ پارٹی ممبرکے طور پر یہ میرا فرض ہے کہ میں یہ خطرہ مول لوں۔ چنانچہ میں نے اپنی ذمے داری پر مظاہرہ منظم کیا ۔ میری شریکِ حیات سکھاں بھی مظاہرے میں شامل تھی۔ اس مظاہرے کی خبریں شائع ہوئیں تو فوج نے گولی مارنے کا حکم دیا۔ جام ساقی دوبارہ روپوش ہوگئے۔اس روپوشی میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ جام ہندوستان چلے گئے۔

پھر 1972ء آگیا، جام کے دوست میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے گورنر بن گئے تھے۔ جام نے روپوشی ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور داڑھی منڈھوا لی ۔ اس وقت ہوٹل شیمریز میں غلام محمد لغاری اور سید باقی شاہ نیپ کی طرف سے پریس کانفرنس کررہے تھے۔ پیپلز پارٹی کی سویلین حکومت نے جام کو گرفتار کیا اور سٹی تھانہ لے جایا گیا۔ جام نے 10 دن تک بھوک ہڑتال کی تو اسپتال منتقل کیا گیا جہاں سے ملتان جیل منتقل کردیا گیا۔ ملتان جیل میں جام نے مارشل لاء کی سزا کو پورا کیا۔ رہا ہوئے تو نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما قصورگردیزی نے اپنے بیٹے کے نام پی آئی اے کا ٹکٹ خریدا ور کوئٹہ بھجوادیا۔ جام کوئٹہ کے گورنر ہاؤس چلے گئے۔

وہاں گارڈ نے انھیں اندر جانے سے روک دیا۔ وہاں بسم اﷲ کاکڑ آگئے اور گارڈ سے کہا کہ ان جیسے لوگوں کو کیوں روکتے ہو؟ یہی تو وہ لوگ ہیں جن کا میر صاحب انتظارکرتے ہیں۔ 1972ء کے اواخر میں نئے آئین کی منظوری کے معاہدے پر بحث ہوتی تھی جس کوکمیونسٹ پارٹی نے اس بنیاد پر روکا تھا کہ اس معاہدے میں مذہبیت زیادہ اور صوبائی خودمختاری کم ہے۔ بزنجو صاحب کا خیال تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کے اس عمل سے قیدوبند کا دور دوبارہ شروع ہوجائے گا۔ جام نے بتایا کہ قید و بند سے ہمیں گریز نہ تھا۔

اب نیپ اور ہمارے اختلافات شروع ہوگئے اور مجھے دوبارہ روپوش ہونا پڑا۔ جام کو یہاں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے تھا کہ میر غوث بخش بزنجو کا تجزیہ درست تھا۔ جام نے طویل عرصہ روپوشی میں گزارا۔ جام نے مولوی کا روپ دھار لیا تھا۔ جام کو روپوشی کے دوران پیغام ملا کہ بابا کے پرانے دوست اور پرانے کانگریسی مور شنکر ملنا چاہتے تھے۔ ملاقات پر مور شنکر نے کہا کہ انڈیا سے پیغام آیا ہے کہ اگر آپ کوپیسے یا سامان وغیرہ کی ضرورت ہو تو ہمیں بتائیں۔ جام نے ان سے کہا کہ انڈیا کے پیغام کو چھوڑیں یہ بتائیں آپ پارٹی کے لیے سو پچاس روپے کا فنڈ دینا پسند کریں گے؟

پھر جنرل ضیاء الحق کا بدترین دور آگیا۔ بھٹو کی سپریم کورٹ میں نواب قصوری کیس میں اپیل کی سماعت ہورہی تھی۔ اس صورتحال میں کمیونسٹ پارٹی صرف اور صرف واحد متحرک قوت تھی جو عوام کو صحیح سوچ اور انقلابی قیادت مہیا کرنے اور انھیں منظم کرنے میں کوشاں تھی۔ اسی وجہ سے جام حکمرانوں کے لیے سنگین خطرہ بنے ہوئے تھے۔ 10 دسمبر 1978ء کو جام ساقی حیدرآباد میں اپنے دوست اقبال میمن کے گھر سے گرفتار ہوئے۔ انھیں فوجی یونٹ میں لے جایا گیا۔ اس یونٹ میں جام ساقی رات بھر ٹارچر برداشت کرتے رہے۔ پھر انھیں لاہور کے شاہی قلعے میں منتقل کردیا گیا۔ 30 جولائی 1980ء کو پروفیسر جمال نقوی اور نذیر عباسی کراچی میں پارٹی مرکز سے گرفتار ہوئے۔ نذیر عباسی کو 9 اگست 1980ء کو شہید کردیا گیا۔ جام نے تفصیل سے نذیر عباسی کا ذکر کیا ہے اور جام ساقی کیس کی تفصیلات درج کی گئی ہیں۔ پھر 9 دسمبر 1986ء کو جام ساقی رہا ہوئے۔ انھوں نے 1970ء اور 1988ء میں دوبارہ تھرپارکر سے سندھ اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہیں ہوئے۔

شیخ ایاز نے اپنی ساہیوال جیل کی ڈائری میں لکھا ہے کہ ایک بار حیدرآباد میں ادبی شام کی صدارت کررہا تھا۔ میرے روبرو طالب علم رہنما جام ساقی کو پیغام ملا کہ اس کو حیدرآباد کا ڈپٹی کمشنر بلارہا ہے۔ اس پر جام نے جواب دیا تھا کہ مجھے آج کل اتنی فرصت نہیں کہ کسی ڈپٹی کمشنر سے مل سکوں۔ انھیں مجھ سے ملنے کا شوق ہے تو خود آجائیں یا کسی کالی دفعہ کے تحت میرے گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیں۔

Comments are closed.