کرشنا کماری کوہلی بھی دھرتی کی بیٹی ہے

علی احمد جان

تھر کے نام کے ساتھ ہی چشم تصور میں کڑھائی دار کپڑوں میں ملبوس گھونگھٹ اٹھائی ، کلائیوں سے کاندھوں تک بازوؤں پرسفید چوڑیاں چڑھائی خواتین آتی ہیں اور ساتھ ہی اونٹوں کے گردنوں پر لٹکتی گھنٹیوں کی آواز اور ان کے پاؤں کے ساتھ باندھے گھنگھروں کی جھنکار کانوں میں رس گھولتی ہے۔

تھر کی سیر کرنے والے پاکستانی جب ہندوستانی فلمی ستاروں سے مشابہت رکھنے والے لوگوں کے نام سنتے ہیں اور مہا بھارت کی یودھ کے گرد بنی فلموں کی کہانیوں متاثر ہوکر سوال پوچھتے ہیں تو تھر کے معصوم لوگ بھی پریشان ہوجاتے ہیں کہ آنے والے ان کے ہم وطن ان سے ایسی باتیں کیوں پوچھتے ہیں جن سے ان کا تعلق نہیں۔

یہ آج کی بات نہیں بلکہ ساتویں صدی عیسوی سےہی باہر سے آنے والے مسلمانوں نے ہندوستان کے لوگوں کو ہندو کہا جو ان کی مذہبی پہچان بھی بن گیا۔ ہندوستان میں مہا بھارت کی کہانی والی یودھ سے پہلے بھی لوگ رہتے تھے جن کا کوئی ایک مذہب یا دھرم نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ایک معبود تھا۔ نہ کوئی کافر یا منکر تھا اور نہ ہی کوئی راسخ اور نہ کوئی غلط۔ یہ الفاظ دھرم لے کر آنے والے برہمن اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔

یہ بات نہیں کہ یہاں کے لوگ جاہل تھے یا کم علم تھے۔ دنیا میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھنے والی دو ایجادات پہیہ اور علم الاعداد یعنی حساب کا جنم ان ہی لوگوں کے ہاتھوں ہوا تھا ۔ ہندوستان میں جنم لینے والے اعداد کو عرب میں ہندسہ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ ہندوستان سے ان کے پاس آیا تھا۔

ویدوں کو اپنے ساتھ لے کر آنے والے آریائی برہمنوں نے ہندوستان والوں کو اپنے سے کمتر سمجھا اور ان کے ساتھ بد ترین سلوک روا رکھا ۔ مقامی لوگوں نے باہر سے آنے والے برہمنوں کا عقیدہ اختیار بھی کیا تو ان کو شودر کا درجہ ملا اور اپنے عقیدوں پر قائم رہے تو اچھوت یعنی چھونے کے قابل نہ رہے۔ ہندوستان میں ویدوں کے آنے سے پہلے یہاں دھرم یا مذہب کا لفظ اجنبی تھا کیونکہ یہاں کوئی ایک مذہب یا معبود کے ماننے والے نہیں تھے بلکہ ہر شخص اپنے عقیدے یا سوچ میں آزاد تھا ۔ برہمنوں کی ویدوں میں ان معبودوں کی تعداد کروڑوں میں بتائی گئی ہے۔ باہر سے آنے والوں نے اپنے نئے لائے دھرم کے مطابق اپنے لئے اعلیٰ درجےاور مقامی لوگوں کے لئے نچلے درجے رکھے۔

شمال مغرب سے آنے والے پیشہ ور لڑاکوؤ ں اور قتل و غارت گری کرنے والوں کے خوف سے پر امن مقامی باشندے جنوب کی طرف بھاگ نکلے یا پھر انتہائی ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے جس میں باہر سے آنے والے اعلیٰ النسل لوگوں کی گندگی صاف کرنا اور ان کی خدمت کرنا شامل تھا ۔ مقامی لوگوں کو اعلیٰ مرتبت کے حامل برہمنوں کے بھجن یا مذہبی گیتوں کی آواز سننے پر بھی پابندی تھی اس لئے ان کے کانوں میں پگلتا سیسہ ڈالا جاتا تھا۔

ساتویں صدی عیسوی کے بعد جب عرب، ترک، افغان، اور ایرانی جب ایک اور مذہب لے کر آئے تو بہت سارے ایسے نچلی ذاتوں کے لوگوں نے اس نئےمذہب کو بھی اختیار کیا کیونکہ یہاں ان کے ساتھ ان کی ذات اور برادری کی بنیاد پر جبر نہیں ہوتا تھا۔ ہندوستان پر جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو بہت سارے لوگوں نے مسیحی مذہب کو بھی اختیار کیا۔ ہندؤ، اسلام اور مسیحی مذاہب اختیار کرنے کے باوجود ہندوستان کے قدیمی باشندوں کا سماجی درجہ بلند نہ ہوسکا ۔

تاریخ کے اس ہولناک جبر کے باوجود ہندوستان کے دیگر علاقوں کے علاوہ تھر کے صحرامیں ان لوگوں کا وجود اپنے قدیمی روایات، عقائد اور رسوم کے ساتھ آج بھی باقی ہے۔ ہندوستان میں برہمنوں کے دھرم کو ماننے والے ان مقامی لوگوں کو دلت کہتے ہیں ۔ دلت نام سے جڑی پست روایات اور سلوک کو بہتر کرنے کے لئے مہا آتما گاندھی نے انھیں ہریجن بھی کہا لیکن نسلی تعصب آج بھی ان کا مقدر ہے۔

تقسیم کے بعد مذہب کے نام پر پھوٹنے والے فسادات نے نہ صرف پورے ملک کو لپیٹ میں لیا بلکہ یہ نفرت اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی آرہی ہے۔ سندھ میں تھر کا علاقہ جو اپنی ایک خاص قدیمی ثقافت اور تمدن کے اعتبار سے ایک پہچان رکھتا تھا جس میں عقیدے کی آزادی سب سے نمایاں تھی ،آہستہ آہستہ معدوم ہونے لگی۔ تھر کے لوگوں نے تقسیم کے بعد ہجرت نہیں کی تھی کیونکہ ہندوستان میں دلت پہلے سے برہمنوں اور اعلیٰ ذات کے ہندؤں کے ہاتھوں جبر کا شکار تھے ایسے میں ان کے لئے سب سے محفوظ جگہ ان کا اپنا علاقہ تھا جہاں وہ برہمنوں ،مسلمانوں اور مسیحیوں کے آنے سے بھی پہلے سے رہتے آرہے تھے۔

تھر کے رہنے والے بھیل اور کوہلی صرف مذہبی تعصب کا ہی نہیں بلکہ جاگیردارانہ سماج کے جبر کا بھی شکار ہیں۔ یہاں رہنے والے جاگیرداروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔ تھر کے صحرا میں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات نا پید ہیں۔ لوگوں کی زندگیوں کا دارومدار مال مویشی اور کاشتکار ی پر ہے جس کا انحصار بارشوں پر ہوتاہے۔

جب بارشیں وقت پر نہیں ہوتی ہیں تو یہاں زندگی اور زیادہ مشکل ہو جاتی ہے۔ خشک سالی میں لوگ بھوک اور بیماری سے دوچار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بااثر اور دولتمند زمینداروں اور ساہوکاروں سے قرضہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بہت زیادہ شرح سود پر لئے گئے قرضوں کو چکاتے چکاتے ان کی زندگیاں گزر جاتی ہیں اور کئی خاندان ان قرضوں کی زنجیروں میں نسل در نسل بندھے بیگاری کی زندگی گزارنے پر مجبورہوتے ہیں۔

کرشنا کماری کوہلی تھر کےایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون ہے جس نے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ ایسے ہی بیگار کی زندگی گزاری ہے جہاں پورا خاندان قرضہ چکانے کے لئے غلام ہوجاتا ہے۔ کرشنا ایک روشنی کی کرن ہے جس نے علم کے نورسے منور ہوکر اجالا پیدا کیا اور اب پاکستان کے سینٹ میں منتخب ہوکر آسمان سیاست پر جگمگانے والی ہے۔ کرشنا اپنے جیسے لوگوں اور خاص طور پر خواتین کے لئے ایک امید بھی ہے کہ اگر ہمت اور حوصلے کو نہ چھوڑا جائے تو ایک دن کامیابی اور کامرانی ان کے قدم ضرور چومتی ہے۔

ویسے تو ہمارے ہاں اقلیتوں اور خواتین کے لئے آئینی طور پر مختص نشستوں کو پر کرنے کے لئے دائیں بازو اور مذہبی جماعتیں بھی غیر مسلموں کو منتخب کرتی رہتی ہیں مگر کرشنا کماری کو پیپلز پارٹی نے ایک عام نشست پر منتخب کرواکر وہ روایت بھی توڑ دی ہے ۔ تھر کی بیٹی کرشنا کماری کوہلی کو بطور اقلیت نہیں اور نہ ہی بطور خاتون سنیٹر بنادیا گیا ہے بلکہ ایک قابل اور ہونہار خاتون کے طور پر میرٹ پر ان کا انتخاب ہوا ہے جس کی وہ حقدار ہے۔ اب کرشنا سینٹ میں اپنے کردار سے یہ ثابت کرے کہ تھر کے صحرا سے اٹھ کر جب ایک دلت ایوان میں آتا ہے تو اپنے ہم نشینوں کی نمائندگی کیسے کرتا ہے۔

کرشنا کوہلی کو سینٹ کے لئے ٹکٹ دے کر پیپلز پارٹی نے بھی کوئی احسان نہیں کیا اور نہ ہی یہ کوئی انوکھا کارنامہ ہے ۔ جس طرح سید، قریشی، بھٹو، مہر، بجارانی، چانڈیو، تالپور ، راجپوت اور دیگر سیاست کرنے کا حق رکھتے ہیں اسی طرح ہی کوہلی اور بھیل بھی اس ملک کے مالک ہیں اور یکساں حقدار ہیں۔ صرف سینٹ کی ایک نشست تک نمائشی طور ہی نہیں بلکہ عام انتخابات میں بھی اہلیت کی بنیاد پر ایسے لوگوں کو آگے لایا جانا چاہئے تاکہ یہاں کے پشتنی باشندوں اور خواتین کی حقیقی نمائندگی ہوسکے ۔

Comments are closed.