میں نہ گاندھیؔ ہوں، نہ منڈیلاؔ

منیر سامی

اگر آپ نے گزشتہ دنوں یہ قول پڑھا ہوتا کہ، ’میں نہ گاندھیؔ ہوں نہ منڈیلاؔ‘ تو شاید آپ یہ سمجھتے کہ یہ بیان شاید امریکہ کے سابق صدر اوباماؔ کا ہے ، جو انسانیت کے ان عظیم رہنماؤں کو اپنا ذاتی ہیرو اور اپنے لیئے ایک مثال گردانتے تھے۔ لیکن یہ قول ان کا نہیں ہے۔ شاید پھرآپ انسانی اخلاقی روایتوں کے تحت یہ سمجھتے کہ یہ کسی ایسے منکسر مزاج انسان کا قول ہے جو ان عظیم شخصیات کی صفات کے مرتبہ کے اپنا سر احتراماً خم کر رہا ہے۔

لیکن یہ قول ایک ایسے شخص کا ہے جسے انسانی سماجیات اور انسانی عظمتوں کی تاریخ سے دور دور کا ربط نہیں ہے۔ دراصل یہ قول سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد شہزادے محمد ؔبن سلمان کا ہے۔ وہ آج کل امریکہ کے دورے پر ہیں۔ ان سے ایک اہم میڈیا ادارے نے ان کی دولت کے بارے میں سوال اٹھایا تو انہوں نے کچھ طرح کہا کہ’ مجھے اس بارے میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ میری دولت میرا ذاتی معاملہ ہے، میں دنیا کے امیر ترین انسانوں میں سے ایک ہوں ، میں شاہ ابنِ شاہ ابنِ شاہ ہوں۔ میرا خاندان سالہا سال سے ریئس ہے۔ میں کوئی غریب آدمی نہیں ہوں، میں گاندھی یا منڈیلا نہیں ہوں‘۔

شہزادہ محمدؔ بن سلمان سے یہ سوال ان کی سعودی عرب میں بد عنوانیوں کے خلاف ایک مہم کے بارے میں کیا گیا تھا ۔ جس کا مقصد بعض سعودی شہزادوں اور رئیسوں سے ان کی مبینہ بد عنوانیوں کے ذریعہ حاصل کی گئی دولت واپس لینا تھا۔ اس مہم کے دوران انہوں نے کئی شہزادوں اور رئیسوں کو گرفتار کرکے ریاض کے ایک پر تعیش ہوٹل میں قید کر دیا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ بعض پر تشدد بھی کیا گیا جس میں شاید ایک شہزادہ مارا بھی گیا۔

پھرخود اس مہم کے دوران شہزادہ محمد کے بارے میں یہ خبریں آنا شروع ہویئں کہ انہوں نے اطالوی مصور لیونارڈو ڈاونچی ؔ کی ایک پینٹنگ ساڑھے چار سو ملین ڈالر میں خریدی، ایک پر تعیش بحری جہاز پانچ سو ملین ڈالر میں خریدا ، اور فرانس میں ایک محل ساڑھے تین سو ملین ڈالر میں خریدا۔ اگر اس محل کا مقابلہ ایک پاکستانی ’شہزادے‘ زرداریؔ کے سرےؔ میں محل کا مقابلہ کیا جائے تو زرداریؔ ایک مسکین دکھائی دیں اور ان کا محل پھونس کی ایک جھونپڑی۔

بتیس تینتیس سالہ شہزادہ محمد ؔ بن سلمان ، موجودہ سعودی بادشاہ سلمان ؔ بن عبدالعزیز کی اولاد ہیں۔ ان کی ماں فہدہؔ بنت فلاح بن سلطان ہثیلی ہیں۔ خود بادشاہ سلمان کی عمر تقریباً بیاسی سال ہے، اور وہ مختلف امراض کا شکار ہیں۔ جن میں بھولنے کی بیماری بھی ہے، اور بعض یہ کہتے ہیں کہ وہ Alzheimer کا بھی شکار ہیں۔

گزشتہ چند سال میں بلکہ خاص طور گزشتہ چند ماہ میں شہزادہ محمدؔ حیران کن طور پر روایتی سعودی شاہی وراثتی نظام کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے کئی اعلیٰ عہدے حاصل کرتے ہوئے اب بلا شرکتِ غیرے ولی عہد بن چکے ہیں۔ یہاں تک پہنچنے میں انہوں نے نہایت سخت گیری سے اپنے مخالفین کو راستہ سے خس و خاشاک کی طرح ہٹا دیا ہے۔ اس میں بعضوں کی کھلے بندوں گرفتاریاں، اور بعضوں کی پر اسرار اموات شامل ہیں۔ ان کے تفتیشی اداروں میں مصر کے کچھ سخت گیر کارندے بھی شامل کیئے گئے ہیں جنہیں تشدد سے کوئی عار نہیں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ شہزادے محمدؔ کی تعلیم صرف مقامی طور پر سعودی عرب میں ہوئی ہے۔ وہ بعض دیگر شہزادوں کے برخلاف حصولِ تعلیم کے لیئے کسی مغربی ملک میں نہیں گئے۔ لیکن یہ ضرور لگتا ہے کہ ان کے مقامی اطالیقوں نے انہیں معروف بھارتی مفکر چانَکیؔہ کو ٹلیا کی ارتھ شاستر، اور بدناِم زمانہ اطالوی مفکر Machiavelli کی کتاب Prince گھٹی میں چٹائی ہے۔ ان کتابوں کے مطابق رقیبوں کو ابتدا ہی میں راستے سے سختی سے ہٹا ددینا ، اور مشاہدین کو ’گربہ کشتن روزِ اول ‘ کا تماشا دکھانا شامل ہے تاکہ عوام عبرت پکڑیں اور قبیح حرکتوں سے بعض رہیں۔

ایک روح فرسا خبر یہ بھی ہے کہ شاید انہیں مفکرین کی ہدایت کو گرہ میں باندھ کر انہوں نے خود اپنی سگی ماں کو بھی منظرِ عام سے غائب کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی محل میں بھی قید کیا گیا ہو۔ وہ گزشتہ تین سال سے کسی کو بھی اپنی ماں کی خبر بادشاہ کو نہیں دینے دیتے ، بلکہ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ شاید علاج کے لیئے ملک سے باہر ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی ماں انہیں اقتدار کے لیئے سخت گیر راستہ یا ہر صورت اپنانے کے خلاف تھیں ،اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرتی تھیں۔ شاید یہ پڑھ کر آپ کو ازمنہ وسطیٰ کے شاہان یا خود خاندانِ مغلیہ اور دیگر کی سازشیں یاد آجایئں۔ کہانی تو ایسی ہی پر اسرار اور دلچسپ ہے۔ شہزادہ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ، ’صرف موت ہی انہیں بادشاہ بننے سے روک سکتی ہے‘۔

اپنی تمام تر سخت گیریوں کی ساتھ شہزادے محمد کا دعویٰ ہے کہ وہ سعودی عرب میں ایک جدید نظام لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہون نے خواتین پر عائدلباس کی چند پابندیاں اٹھائی ہیں، انہیں گاڑی چلانے کی اجازت دی ہے۔ خواتین اب اسٹیڈیم میں کھیل دیکھ سکتی ہیں۔ اور یہ کہ اب سعودی عرب میں سنیما بھی کھولے جایئں گے اور موسیقی کے مظاہرے وغیرہ بھی ہوں گے۔

اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایران کے ساتھ دشمنی میں شدت کر دی ہے، یمن پر حملہ کرکے وہاں لاکھوں غریب ہلاک کر دیئے ہیں۔ یمن پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ وہاںانسانی حقوق کی سخت ترین خلاف ورزیاں بھی ہو رہی ہیں۔ پڑوسی ملک قطر کے ساتھ بھی ان کا رویہ سخت معاندانہ ہے۔اس سارے معاملے میں انہوں نے دولت کے بل پر کئی اسلامی ممالک کا ایک بلاک بھی قائم کیا ہے، جو سعودی عرب کی فوجی کاروایئوں میں مدد گار ہے۔ خود پاکستا ن کے سابق فوجی سربراہ جنرل راحیلؔ شریف اس فوجی بلاک کے سپہ سالار ہیں۔ حال ہی میں پاکستان نے سعودی عرب کو فوجی دستے بھی فراہم کیے ہیں۔ شہزادہ محمد ؔامریکہ سے اربوں ڈالر کے ہتھیارخرید رہے ہیں اور ایٹمی قوت بننے کا ارادی بھی کر رہے ہیں۔

اب سعودی عرب کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یا اس کی نیا کس کنارے جا لگے گی،یہ کوئی نہیں جانتا۔ اگر شہزادہ محمد ؔ، میں گاندھی یا منڈیلا نہیں ہوں، کے ساتھ یہ بھی کہہ دیتے کہ میں فرعونؔ، یا نمرودؔ ، یا شدادؔ ہوں، تو شاید زیادہ درست ہوتا۔ پھر جالب یہ کہتے کہ ، ’تم سے پہلے بھی جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا، اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھاـ‘۔ لیکن کئووں کے کوسے سے کبھی ڈھور مرے ہیں؟ مبصرین کا خیال ہے کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد شہزادہ محمد ؔ ممکنہ طورپر بیسیوں سال حکمرا ں رہیں گے۔

Comments are closed.