مجھے بادشاہ بننے سے اب صرف موت ہی روک سکتی ہے

سعودی شاہی خاندان خود تو شاہانہ زندگی بسر کر رہا ہے لیکن عوام پر نئے ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں۔ امریکی صدر سے ملاقات سے پہلے محمد بن سلمان نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ کتنا پیسہ خود پر اور کتنا غرباء پر خرچ کرتے ہیں۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منگل کے روز ملاقات کرنے والے ہیں۔ اس ملاقات میں ایران کا موضوع سرفہرست ہوگا لیکن بتیس سالہ سعودی ولی عہد سعودی معاشرے میں لائی جانے والی تبدیلیوں، جارحانہ خارجہ پالیسی، یمنی جنگ اور قطر کے ساتھ جاری سفارتی تنازعے پر بھی گفتگو کریں گے۔

سی بی ایس نیوز پر اتوار کے روز ان کا ایک انٹرویو بھی نشر کیا گیا۔ محمد بن سلمان خواتین کے حقوق کے حوالے سے کئی اصلاحات لا چکے ہیں۔

سعودی حکومت نے اب خواتین کو ڈرائیونگ، مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے اور عوامی اجتماعات میں بھی شرکت کرنے کی اجازت دی ہے۔  لیکن خواتین ان تمام کاموں کے لیے اب بھی اپنے کسی محرم سے اجازت لینے کی پابند ہیں۔ محمد بن سلمان کا کہنا تھا، ’’ہمارے ہاں ایسے انتہا پسند موجود ہیں، جو خواتین اور مردوں کے اختلاط کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔ وہ تنہائی میں ایک مرد اور ایک خاتون کی موجودگی اور آفس میں خواتین و حضرات کی موجودگی کے مابین فرق کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے خیالات پیغمبر اسلام کے دور کے برعکس ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم تمام انسان ہیں اور ان میں فرق نہیں ہے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سعودی عرب اصل سعودی عرب نہیں ہے۔ اسلام کی سخت گیر تشریح کا آغاز 1979ء کے بعد شروع ہوا، ’’میں ناظرین سے کہوں گا کہ اصل سعودی عرب دیکھنے کے لیے اپنا اسمارٹ فون اور گوگل استعمال کریں۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی کا سعودی عرب آپ آسانی سے تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ تب وہ دیگر خلیجی ممالک کی طرح تھا، خواتین ڈرائیونگ بھی کرتی تھیں، مووی تھیٹر بھی تھے اور  ہر جگہ خواتین کام کرتی بھی نظر آتی تھیں‘‘۔

انہوں نے ملک میں جاری انسداد بدعنوانی آپریشن کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’ہم نے ابھی تک کرپشن سے حاصل کردہ ایک سو ارب روپے ( ریال) جمع کر لیے ہیں۔ جو کیا گیا وہ انتہائی ضروری تھا‘‘۔

ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کا اپنا طرز زندگی تو انتہائی شاہانہ ہے، حال ہی میں آپ نے فرانس میں دنیا کا مہنگا ترین گھر خریدا ہے لیکن عوام پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں، کیا یہ منافقت نہیں ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’’میری دولت میرا ذاتی معاملہ ہے۔ جہاں تک میرے اخراجات کا معاملہ ہے تو میں ایک امیر شخص ہوں، میں گاندھی یا منڈیلا نہیں۔ میں اپنی دولت کا 51 فیصد دوسرے لوگوں اور 49 فیصد خود پر خرچ کرتا ہوں۔‘‘

محمد بن سلمان اپنے والد کے بعد سعودی عرب کے بادشاہ بن جائیں گے اور وہ اس ملک پر آئندہ پچاس یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصے تک حکمرانی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب انہیں یہ منصب حاصل کرنے سے صرف موت ہی روک سکتی ہے۔

DW

Comments are closed.