ازلی رشتہ 

کوی شنکر

عورت اور مرد آج بات کرتے کرتے پھر لڑ پڑے تھے۔ دونوں جب لڑتے ہیں توخوب لڑتے ہیں اور ایک دوسرے سے بات کرنا تک گوارا نہیں کرتے اور جب دوست بنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کبھی لڑے ہی نہ تھے۔ خوب دوستی نبھاتے ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں۔ دونوں کا یہ تعلق ہزاروں سال پر محیط ہے اس رشتے نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں تاہم ان دونوں کا رشتا جتنا مضبوط ہے اتنا ہی کمزور بھی ہے۔

ہاں توعورت اور مرد آج بات کرتے کرتے پھرلڑ پڑے تھے، لڑنے کی بظاہرکوئی بڑی وجہ نہ تھی۔ ہوا یوں تھا کہ دونوں ساحل پر چل رہے تھے۔عورت نے مرد سے کہا کہ – ‘میں ذرا تھک گئی ہوں۔۔ ۔ ۔ کچھ دیر یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ ۔ ۔’ مرد نے جواب دیا ‘ ابھی تو چلنا شروع ہوئے ہیں اور تم ابھی سے تھک گئی۔ ۔ ۔ تم کیسے میرا عمر بھر ساتھ دوگی۔ ۔ ۔’ عورت یہ سن کرخاموش ہوگئی اور پھر اس نے التجا کے انداز میں کہا‘ پلیز کچھ دیر کو بیٹھتے ہیں نا، میرے پیر دکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ’مرد نے یک سراس کی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ‘ نہیں میں نہیں بیٹھوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ’

عورت نے کہا‘ جب تمہارے پیر دکھے تھے تو میں تمہارے کہے بغیر رکی تھی اور تمہارے پیر بھی دبائے تھے۔ ۔ ۔ آج جب میں تم کو رکنے کا کہہ رہی ہوں تو، تم میری بات نہیں سن رہے ۔ ۔ ۔!’ مرد نے جواب دیا‘ ہاں تو ٹھیک ہے نا، عورت کا کام مرد کی خدمت کرنا ہے اور اس کو مرد کی ہمیشہ خدمت کرنے چاہیے۔ ۔ ۔’

اس کا مطلب ہے کہ تم آج بھی عورت کوغلام سمجھتے ہو۔ ۔ ۔ ہم نے تو ساتھ چلنے اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا، پھرآج ایسا کیوں؟’ یہ کہتے ہوئےعورت کا گلا رندھ گیا۔ لیکن مرد نے اس کی بات کو ان سنا کردیا اور پیر کے انگوٹھے سے ریت کو کریدتے ہوئے کہنے لگا۔ ‘ تم کتنی کمزور ہو۔۔۔ چار قدم بھی چل نہیں سکتی ہو۔ ۔ ۔’ عورت پتھروں پر بیٹھ گئی جبکہ مرد وہیں کھڑا رہا۔ دونوں خاموش ہوگئے لیکن سمندر کی لہریں شور مچاتی ہوئی ساحل سے ٹکرا کر دم توڑتیں رہیں۔

مرد نے کچھ دیر بعد کہا ‘ اگر اب تھکن ختم ہوگئی ہو تو چلیں۔۔۔؟’ عورت نے مرد کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگی ‘ کیا تم کچھ دیر اور نہیں رک سکتے۔ ۔ ۔ مجھے بہت درد محسوس ہو رہا ہے۔ ۔ مجھ سے چلا نہیں جا رہا، اس لئے رکی ہوں۔ ۔ تم کومیری تکلیف کا کیوں احساس نہیں۔ ۔ ! مرد اب بھی عورت کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا ‘کیا واقع تمہارے پیر دکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔’عورت نےجواب دیا ‘ نہیں میں ٹھیک ہوں ۔ ۔ ’ وہ مزید کہنے لگی۔ ۔ ‘ مجھے اس تکلیف سے اتنا درد نہیں ہوا جتنا تمہارے رویے نے دیا ہے۔

عورت اور مرد تو ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ ۔ پھر تم مجھ سے کیوں بیزار ہو۔ ۔ ۔ ’مرد نےعورت کی بات سن کر کہا‘ میں نے کوئی غلط بات کی ہے کیا۔ ۔ ۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں نے کچھ غلط کہا ہے۔ ۔ ۔ میں آفس کے کام کی وجہ سے رات بھر سو نہیں پایا شاید یہی وجہ ہوگی جس سے تم کو ایسا لگا کہ میں تم سے بیزار ہوں۔۔ ۔ میں تم سے کبھی بیزار نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی ہونگا۔ ۔ ۔ ۔

کیا تمہارے پیر بہت دکھ رہے ہیں۔ ۔ ۔ میں دبادوں پیرتمہارے۔ ۔ ۔’یہ کہہ کرمرد عورت کے پاس بیٹھ گیا اورعورت کے پیروں کو سہلانے لگا۔ دونوں ان پتھروں پر کافی دیر تک بیٹھے رہے۔ دونوں نے اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا بھی وہیں کھایا اور پھر غروب ہوتے ہوئے سورج کو الوداع بھی انہیں پتھروں پر بیٹھ کر کیا۔ عورت نے مرد سے کہا‘ بہت دیر ہوگئی ہے کیا اب گھر چلیں’ مرد نے عورت کی بات سن کر کہا ‘ہاں چلو ۔۔۔’ اور پھر دو سائے چاند کی روشنی میں چلتے چلتے غائب ہو گئے۔


Comments are closed.