قدموں کے نیچے سرخ قالین اور سامنے ناراض مظاہرین

آصف جیلانی

سعودی عرب کے ۳۲ سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ، بدھ کے روز جب برطانیہ کے پہلے ۳ روزہ سرکاری دورہ پر لندن پہنچے تو ایک طرف ان کا سرخ قالین بچھا کر استقبال کیا گیا تو دوسری طرف پارلیمنٹ اور دس ڈاوننگ اسٹریٹ کے سامنے شدید ناراض مظاہرین نے ان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے دھرنا دیا۔ سعودی ولی عہد کی آمد پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ لندن کی سڑکوں پر ولی عہد کے حق میں اور مخالفت میں اشتہارات کی جنگ بھڑک اٹھی ہے۔

لندن کی کالی ٹیکسیوں پر ولی عہد کی بڑی بڑی تصویریں چسپاں ہیں دوسری طرف سوشل میڈیا پر یمن میں تباہ کن جنگ کا سارا الزام ولی عہد پر لگایا گیا ہے اور انہیں جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر جہاں ایک طرف ولی عہد کے ان اقدامات کی تعریف کی جارہی ہے جن کے تحت خواتین کو کار چلانے کی اجازت دی گئی ہے اور خواتین مرَدوں کے ساتھ فٹ بال میچ دیکھ سکتی ہیں۔

اس کے مقابلہ مین سوشل میڈیا میں سعودی ولی عہد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزا م ہے اور کہا جارہاہے کہ ولی عہد نے اب بھی کئی بڑی کمپنیوں کے سربراہوں کو قید کر رکھا ہے اوران سے سرمایہ اینٹھنے کے لئے لین دین ہورہا ہے اور انہیں زدوکوب کیا جارہا ہے اور دوسری جانب ولی عہد سعودی عرب میں برطانیہ کی طرف سے ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لئے کوشاں ہیں ۔ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا اس ماحول میں کوئی برطانوی کمپنی سرمایہ کاری کر سکتی ہے؟

سعودی ولی عہد کاہوائی اڈہ پر خیر مقدم وزیر خارجہ بورس جانسن نے کیا جس کے بعد بکنگھم محل میں ولی عہد ، ملکہ ایلزبتھ کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر مدعو تھے۔ یہ شہزادہ محمد بن سلمان کے لئے غیر معمولی اعزاز تھا کیونکہ وہ سربراہ مملکت نہیں ہیں ۔ رات کو برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس اور پرنس ولیم نے انہیں کھانے پر مدعو کیا تھا۔ اس انداز کی شاہانہ مہمان نوازی کا مقصد واضح ہے ۔برطانیہ جو پہلے ہی پچھلے تین سال میں سعودی عرب کو ساڑھے چھ ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرچکا ہے ، مزید اسلحہ کی فروخت کے سودے اور سعودی عرب میں بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔ 

سعودی ولی عہد جب وزیر اعظم ٹریسا مے سے ملاقات کے لئے دس ڈاوننگ اسٹریٹ پہنچے تو انہیں باہر گیٹ کے سامنے شدید ناراض مظاہرین کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک شخص کو اس وقت گرفتار کر لیاگیاجب اس نے ولی عہد کے کاروں کے قافلہ کی ایک کار پر انڈا پھینکا۔ سب سے زیادہ ولی عہد کے خلاف احتجاج ،یمن کی تباہ کن جنگ پر کیا جارہا ہے جس کے وہ معمار گردانے جاتے ہیں ۔ پچھلے تین برسوں میں اس جنگ میں سعودی اتحاد کی بمباری سے دس ہزار سے زیادہ افرادہلاک ہو چکے ہیں ۔

اس ہلاکت کا دوش برطانیہ کے اسلحہ کو دیا جارہا ہے جو گذشتہ تین برس میں سعودی عرب کو فروخت کیا گیا ہے جس کی مالیت ساڑھے چھ ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ سعودی بمباری اور یمن کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی کی وجہ سے لاکھوں افراد فاقہ کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یمن کی جنگ کے علاوہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر سعودی عرب میں حکومت کے نکتہ چینوں کی گرفتاری اور انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ 

جس روز ولی عہد لندن پہنچے پارلیمنٹ میں حزب مخالف لیبر پارٹی کے سربراہ نے الزام لگایاکہ وہ برطانیہ میں شدت پسندوں کی مالی اعانت کر رہے ہیں ۔ جیریمی کوربن نے وزیر اعظم سے سوالات کے وقفہ میں کہا کہ یمن میں سعودی بمباری اور ناکہ بندی کی وجہ سے لاکھوں بچے فاقہ کشی کا شکار ہیں اس جرم میں برطانیہ بھی ملوث ہے جو سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ 

لبرل ڈیموکریٹس کے سربراہ ونس کیبل نے ٹیریسا مے کی حکومت کی مذمت کی کہ اس نے قرون وسطی کی ایک مذہبی آمریت کے سربرہ کیلئے سرخ قالین بچھا کر استقبال کیا ہے ۔انہوں نے برطانوی حکومت پر زور دیا کہ وہ سعودی عرب پر اپنا اثر استعمال کرے اور یمن میں تباہ کن بمباری فوری رکوائے۔ 

لیبر پارٹی کی شیڈو وزیر خارجہ ایملی تھارن بیری نے کہا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ، یمن میں تباہ جن جنگ شروع کرنے اور شام میں جہادیوں کو مالی امداد دینے کے ذمہ دار ہیں اور گذشتہ آٹھ ماہ میں جب سے وہ ولی عہد بنے ہیں سعودی عرب میں سر قلم کرنے کی سزاوں میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ ساری دنیا میں انسانی حقوق اور جنگی جرایم کی بات کرتا ہے لیکن جب معاملہ سعودی عرب کے جنگی جرایم کا آتا ہے تو وہ شرمناک خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ 

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس وقت ٹریسا مے سعودی عرب کے ساتھ اسلحہ اور سرمایہ کاری کے سودے اور بریگزٹ کے بعد تجارتی سمجھوتے کے لئے سخت پریشان ہیں اس لئے سعودی ولی عہد پر کڑی نکتہ چینی کے باوجود وہ ان کی خوشامدانہ پذیرائی کرنے پر مجبور ہیں ۔ٹریسا مے بار بار اس پر زور دیتی ہیں کہ برطانیہ کے سعودی عرب سے دیرینہ قریبی تعلقات ہیں اور سعودی عرب سے انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون کی بدولت برطانیہ میں دھشت گردی پر قابو پانے میں بڑی مدد ملی ہے اور برطانوی جانیں بچی ہیں لیکن انہوں نے اس کی کبھی وضاحت نہیں کی۔

Comments are closed.