لگاجو ایک کو جوتا تو سب نے کیوں برا مانا؟

طارق احمدمرزا

پاکستان کے عام آدمی نے بالآخر بیدار ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ستر برس سے جوتے ہی نہیں ڈنڈے سوٹے کھاکھا کر،ایک کے بعد دوسری حکومت بلکہ ایک ہی طائفے کے باربار حکومت میں آجانے کے باوجود کیا عام آدمی ہی جوتے کھانے کے لئے رہ گیا تھا؟۔

عام آدمی جوتے کھاتا رہے ،بے عزت ہوتا رہے،فاقوں مرتا رہے،لڑتا رہے،قتل ہوتا رہے اس کی خیر ہے ،اس کی کوئی بات نہیں لیکن عام آدمی کا گوشت نوچ نوچ کر کھانے والے سیاسی گدھ جو منہ میں رالیں ٹپکائے ،اگلے الیکشن کے سلسلے میں جوتیاں گھسیٹنے کے مقابلہ میں مصروف،الیکشن جیتنے کی غرض سے ،ذاتی مفاد اورمطلب کی خاطرووٹروں کے تلوے تک چاٹنے کوتیار،ہوس کی دوڑ میں مصروف اپنی اپنی باریوں کا انتظار کر رہے ہیں اپنے ’’ہم پیشہ ‘‘پہ ایک عدد عام ساجوتا مارے جانے پہ جس طرح بھیڑیوں کی طرح سے اکٹھے مل کر غرائے ہیں اس نے ہر قسم کی کھلی ڈلی اور ڈھکی چھپی بدمعاشیہ کوننگا کرکے رکھ دیا ہے۔لگتا ہے پاؤں سے اترا ہوا جوتا ان میں سے ایک کے منہ پہ نہیں بلکہ پاؤ ں سمیت ان سب کی دم پہ پڑاہے۔

پاکستان کا نام انسانی حقوق کے حوالے اور دہشت گردی کے حوالے سے گرے نہیں بلکہ بلیک ہونے کو پہنچانے والے اپنے منہ پہ کالک مل دیئے جانے پر جل بھن کر کالا کوئلہ کباب کیوں بن گئے۔عام آدمی کا منہ کالا ہوتا رہے وہ خیر ہے۔غنڈے عام آدمی کی بچیوں اور بچوں سے منہ کالا کرتے رہیں وہ خیر ہے۔اس کی کوئی پروا نہیں۔

کیسے ڈھیٹ پن سے کہا جارہاہے کہ کل کو یہ جوتا ہمارے منہ پہ بھی لگ سکتا ہے اس لئے ہم سب اس کی مذمت کرتے ہیں۔یہ بدتمیزی ناقابل قبول ہے وغیرہ۔بات تو یہ ہے کہ بدتمیز تو تم سب ہو۔عام آدمی کو پینے کا صاف پانی نہیں دے سکے،کچرے کے ڈھیر سے پیٹ کا دوزخ بھرنے والے مزدور بچوں سے ان کا بچپنا چھیننے والو بے حس،ظالم،جابر اور بدتمیز تو تم ہو۔تم پہ ایک پاکستانی نہیں کروڑوں پاکستانی جوتا مارنے کو تیار بیٹھے ہیں۔کوئی مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا کی گردان طوطے کی طرح رٹ کرسناتارہتا ہے اور باقی سب ککڑ بٹیرے مجھے کیوں نہیں اندر ڈالا ،مجھے کیوں نہیں اندرڈالا کا گلہ کئے جارہے ہیں۔

میں تو حیران ہوں کہ اتنی پریشانی آخر ہے کاہے کو۔ایک بار باہر نکلانے کے بعدکیا دوبارہ نہیں اندر ڈالا جاسکتا؟۔ اورپھر اندر ڈالنے کے بعد ظاہر ہے کہ نکال بھی لیا جاتا ہے۔یہ تو معمول کی بات ہے۔ساری دنیا میں ایسا ہوتا ہے۔دنیا کے باقی حکمران تو ایسا شور نہیں ڈالتے۔عام آدمی کو تو ستربرسوں سے صبر کی تلقین کرتے چلے آئے ہو ،خود پہ آن پڑی ہے تو کیا قیامت ٹوٹ پڑی۔

تمہیں شرم نہیں آتی ان نومولود ببچوں کے چہرے دیکھ کر جو زبان حال سے کہتے رہتے ہیں کہ مجھے جنم دینے والی ایک غریب ماں کو ہسپتال سے دھکے دے کر کیوں نکالا ۔ہاسپٹل بیڈ کی بجائے میری ماں کے پیٹ سے مجھے فٹ پاتھ پہ،یا ہسپتال کی سیڑھیوں پہ کیوں نکالا؟۔لیکن تم تو بہرے اور نابینا ہو نہ تمہیں ان بچوں کے چہرے دکھائی دیتے ہیں اور نہ ان کا رونا تمہیں سنائی دیتا ہے اسی لئے تو جوتا تمہارے اس بہرے کان سے ٹکرا کرتمہارے کندھے پہ پڑا جس پہ تم عام آدمی کی لاش اٹھائے لندن،دبئی ،سعودی عرب کے چکر لگاتے رہتے ہو۔

واضح رہے کہ یہاں’’ تم‘‘ سے مراد کوئی ایک سیاستدان نہیں بلکہ کلہم پاکستانی سیاستدانوں کا طبقہ مراد ہے ،کیونکہ یہ جوتا کسی ایک شخص کی ذات پہ نہیں اس طبقے پہ مارا گیا ہے جس نے عام آدمی کو ستر برسوں میں خواہ وہ نام نہاد جمہوری دور تھا یا غیرجمہوری،جوتے مارمار کے اس کے چہرے اور اس کی عزت نفس کو اتنا مسخ کر دیا ہے کہ وہ خود کو بھی پہچاننے کے قابل نہیں رہا۔ 

سارے کے سارے جو سیاستدان ہیں ان کو عام آدمی نے اچھی طرح سے جان لیا ہوا ہے،یہ سب ہمارے دیکھے بھالے ،ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حکومت میں سیاسی وفاداریاں بیچ بیچ کر اور کسی نہ کسی وزارت میں پہلے ضرور رہ چکا ہے۔آج کے پاکستان میں بیروزگاری،عدم تحفظ،ناخواندگی،ملاوٹ،مہنگائی،فرقہ واریت،بنیادی انسانی حقوق کی پامالی،کسادبازاری،بلیک مارکٹنگ،عالمی قرضے،خشک سالی،فاقہ کشی،جگ ہسائی، ان سب کی ہی تو پیدا کردہ ہیں ۔

کیا حکومت اور کیا نام نہاد اپوزیشن جو اپنے ہمجولی کوجوتا مارے جانے کے بعد عام آدمی کے خوف سے یک زبان ہوکر بھڑکیں مارنے شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن اب عام آدمی کو تم بڑھکیں مارمارکر مزید ڈرا دھمکا نہیں سکتے ۔نہ ہی تم خود کو یہ طفل تسلیاں دے کربہلا سکتے ہو کہ یہ جوتا (یا جوتے) کسی مخصوص’’تحریک لبیک‘‘ کی طرف سے ’’منظم سازش‘‘کے تحت مارے گئے تھے۔

میں جس ’’تحریک لبیک ‘‘ کے منظم ہونے کی شروعات دیکھ اور محسوس کررہا ہوں وہ عام آدمی کی تحریک لبیک ہے جو وہ کسی اور طالع آزما مطلب پرست سیاسی یا نیم سیاسی بے ضمیرے بدتمیز پین دی سری شخص کی نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے ضمیر کی آوازپہ لبیک کہتے ہوئے شروع کرچکا ہے۔

عام آدمی اب بیدار ہو چکا ہے اورآج کے بعد تم اس کے ہاتھ میں کوئی بینر،کوئی پلے کارڈ،کوئی موم بتی،کوئی جھنڈہ ،کوئی گلدستہ ،کوئی ہار،کوئی ڈھول ،کوئی شہنائی،کوئی ا نتخابی نشان،کوئی ووٹ کی پرچی نہیں بلکہ جوتا ہی دیکھوگے اور تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

6 Comments