یا قاضی شہر ! احتیاط لازم ہے

اصغر علی بھٹی نائیجر مغربی افریقہ

یورپ نے پریس لگایا اور علمی انقلاب برپا کردیا ۔ دنیاوی علوم کے تراجم کرکے اپنے بچوں کو پڑھانے والے آج چاند سے آگے کے سفر پر محو پرواز ہیں اور ہم کشکول اُٹھائے ان کے پیچھے پیچھے رینگ رہے ہیں کیوں آخر کیوں ؟؟صرف اور صرف ایک مفتی اور ایک قاضی کی کم علمی پر مبنی ناعاقبت اندیشانہ فتویٰ کی وجہ سے۔ کہ جس نے پریس کو خلاف اسلام بتا کر پریس لگانا حرام قرار دے دیا تھا۔

حالیہ دنوں میں میرے شہر کے ایک معزز قاضی جناب شوکت صدیقی صاحب نے کچھ اسلامی مفتیان کے ساتھ مل کر ایک اور انوکھاشغل فرمانے میں مصروف ہیں کہ جس نے مذہب تبدیل کرنا ہو وہ پہلے ان کے پاس آئے اور پھر ان کی اجازت سے وہ مذہب تبدیل کرسکے گا میں نے ان کی اس مفتیانہ و قاضیانہ موشگافیوں کو پڑھا تو مجھے قسطنطنیہ کے وہ مفتی صاحب یاد آگئے جنہوںنے اپنے سارے حواریین کے ساتھ، اپنے پورے علم کے ورقے کھنگالنے کے بعد یہ ارشاد فرمایا تھا کہ پریس لگا نا اور اس میں کسی اسلامی کتاب کا چھپوانا حرام ہے ۔

پھر یہ حرام حلال کیسے ہو جا تے ہیں بادشاہوں کے دربار میں وظیفے پانے والے ان قاضیوں کا قصہ سناتے ہوئے برصغیر پاک و ہند کے شیخ الحدیث اور اہل حدیث کے ممتاز عالم دین جناب مولانا محمد یوسف صاحب جے پوری اپنی مشہور تصنیف حقیقۃ الفقہ میں یوں درج فرماتے ہیں’’ ہارون الرشید نے اپنے گھر میں کسی کو زنا کرتے دیکھا ،خود دیکھا اور سخت کوفت ہوئی کہ کیا کریں۔ خادم سے کہا کہ کسی فقیہ کو لے کے آ ۔ امام یوسف کا اس خادم سے رابطہ تھا وہ اُنہیں لے گیا۔ ہارون الرشید نے اُ ن سے پوچھا کہ اگر امام وقت خود کسی کو زنا کرتے دیکھے تو کیا کرے ۔ اور اس وقت ہارون الرشید کے چہرے پر رنج کے آثا ر نمایاں تھے ۔ امام یوسف سمجھ گئے کہ یہ ہارون الرشید کے گھر کا واقعہ ہے اُنہوں نے فتویٰ دیا کہ اس صورت میں حد نہیں ہے ۔ ہارون الرشید بہت خوش ہوا اور امام یوسف کو انعام عطا فرمایا ‘‘( کتاب الفقہ ص 63 مولانا محمد یوسف جے پوری نعمان پبلی کیشنز )۔ 

پھر انہی امام یوسف اور ہارون الرشید کا ایک اور واقعہ درج کرتے ہیں ’’ جب ہارون الرشید خلیفہ ہو ا تو اپنے باپ کی ایک لونڈی پر اس کی طبیعت آئی۔ اور اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔ اس لونڈی نے کہا کہ میں تیرے لئے حلال نہیں ہو سکتی کیونکہ تمہارے باپ نے میرے ساتھ خلوت کی تھی پھر ہارون کا عشق بڑھا تو اُس نے قاضی ابو یوسف کو بلا کر کہا کہ اس لونڈی کے حلال ہونے کی کوئی صورت ہے تمہارے پاس ۔؟ کہا ہے ۔ فرمایاکیالونڈی جو دعویٰ کرے گی وہ مان لیا جائے گا ۔ آپ اس کی بات نہ مانئے کیونکہ وہ جھوٹ سے محفوظ نہیں۔

اس فتویٰ پر ہارون الرشید خوشی سے جھوم اُٹھااوراس فتویٰ پر ایک لاکھ درہم انعام کا حکم دیا ۔ قاضی صاحب نے کہا کہ یہ روپیہ اسی وقت رات کو ہی مجھے مل جائے ۔ اس پر کسی نے کہا کہ خزانچی اپنے گھر ہے اور تمام دروازے بند ہو چکے ہیں۔ قاضی صاحب نے فرمایا جب ہم بلائے گئے تھے تب بھی تو دروازے بند تھے آخر کھولے گئے ‘‘(کتاب الفقہ ص 64/65 مصنفہ مولانا محمد یوسف جے پوری نعمان پبلی کیشنز )۔

جناب قاضی وقت صاحب اگر برا نہ منائیں تو دست بستہ عرض ہے کہ قاضی یوسف نے تو ایک لاکھ درہم ایک لونڈی حلال کرنے کے لیا تھا آپ اسلام آباد کے سب سے مہنگے سیکٹر ایف سکس میں بنگلہ اور پھر ڈیکوریشن کے نام پر ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ کیا حلال کرنے کے لئے لئے بیٹھے ہیں۔

آپ کبھی کسی قاتل کا منہ چومنے نکل جاتے ہیں اور کبھی کسی لال مسجد والے منظورحسین کا نام فورتھ شیڈول سے نکالنے کے آرڈر جاری فرمادیتے ہیں۔ کبھی فوج کی پریڈ گراؤنڈ کانام تبدیل کر دیتے ہیں تو کبھی اب مذہب تبدیل کرنے کے لئے پیغمبروں سے بھی بڑا دعویٰ کر کے حشر اُٹھا دیتے ہیں۔اور آپ پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کئی ریفرنس چل چکے ہیں۔

اگر آپ واقعۃمسلمان قاضی ہیں تو عمل سے دکھائیے ۔ آپ دوسروں کے مذہب یا دوسروں کے اسلام پر تبصرہ کرنے اور تبدیلی کے سرٹیفیکٹ دینے سے پہلے کروڑوں کے لگے دھبے دھوئیے اور اپنے اوپر فتویٰ کی بجائے تقویٰ لاگو کیجئے۔ورنہ ہر کوفہ و بغداد کے بنگلے لینے اور ان کی آرائش کے نام پر کروڑوں ڈکارنے والے قاضیوں کے بارے میں مولانا نیاز فتح پوری نے فرمایا تھا’’میں نے ان کے حرکات ناشائشتہ ، ان کے اخلاق ذمیمہ ، ان کے افعال رکیکہ اور ان کے مشاغل رذیلہ کو بے نقاب کرکے لوگوں کو بتایا ہے کہ ان کا وجود اللہ کا عذاب ہے ۔

ان کی ہستی خدائی لعنت ہے جس نے مسلمانوں کو گھیر رکھا ہے ۔ ان کا مقصود زندگی صرف ریاو مکر سے دولت کمانا ہے اور ان کو مطلق پروا نہیں اگر ان کی تعلیمات سے اسلام و صاحب اسلام دنیا میں بدنام ہوجائے ۔ یہ مذہب اسلام کو بے عقلیوں کا مجموعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔یہ ذہنی و عقلی آزادیاں سلب کرکے مسلمانوں کو درجہ انسانیت سے گرا کر حیوان بناتے جا رہے ہیں ۔ یہ اس دور میں علم و روشنی میں ہمیں پھر جہل و تاریکی کی طرف لے کر جا رہے ہیں اور وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ایک خود غرض نفس پرست انسان کر سکتا ہے ۔

میں قرون اولیٰ کی تاریخ سے ، عہد عباسیہ وامویہ کے واقعات سے حکومت ترکی و ایران کے حالات سے اور افغانستان کی روداد سے لوگوں پر ظاہر کیا ہے کہ اس گروہ نے انسانیت پر کیا کیا مظالم روا رکھے ہیں اخلاق کا خون کس بے دردی سے بہایا ہے ۔۔۔اگر مذہب اسلام حقیقتاََ نام ہے انہیں عقائد و تعلیمات کا جو ان کی طرف سے پیش کی جا رہی ہیں اُنھیں اخلاق کو جو ان میں پائے جاتے ہیں ، اُسی محبت و رواداری کا جو ان کی طرف سے ظاہر ہو رہی ہے اور اسی وسعت نظر وپر مائگی کا جو ان کے اقوال و افعال کی سرمایہ دار ہے تو میں نہائیت صفائی سے ایک بار اور ہمیشہ کے لئے اعلان کئے دیتا ہوں کہ میں مسلمان نہیں ۔

لیکن اگر اسلام ضمیر و خیال کی آزادی کو نہیں چھینتا ، اگر وہ فکر و رائے کی حریت کا دشمن نہیں اگر وہ بغیر اطمینان نفش پیدا کئے ہوئے بہ جبر اپنی حقیقت کسی سے تسلیم نہیںکرواتا تو اے مسلمانو میں تم سے ہی پوچھتا ہوں کہ ان مولویوں کو کیا حق ہے کہ مجھے اسلام سے خارج کریں۔حکومت کی امداد سے کسی کو زبردستی مسلمان بنانا یا کسی کی آزادی خیال کو چھیننا ، اسلام کی حقانیت کی دلیل نہیں ہو سکتی،چنگیز و ہلاکو اس سے قبل ایسا کر چکے ہیں لیکن دنیا نے انھیں جیسا سمجھا وہ آپ کو بھی معلوم ہے اور مجھے بھی‘‘ ( من و یزداں ص89 تا92 مصنفہ علامہ نیاز فتح پوری آواز اشاعت گھر الکریم مارکیٹ اردوبازار لاہور)۔

.قاضی صاحب احتیاط لازم ہے اور تب تو اور بھی جب پانچ میں سے تین انگلیاں اپنی طرف اشارہ کر رہی ہوں

3 Comments