اسٹیفن ہاکنگ کو ہم نہ سمجھ سکے  

علی احمد جان

سٹیفن ہاکنگ کی موت پر جب ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ڈاکٹروں  کی تشخیص کے برعکس ایک جان لیوا بیماری کو شکست دے کر   نہ صرف ایک لمبے عرصے تک زندہ رہا   بلکہ اکسفورڈ میں نوجوانوں کے  لئے ایک مینارہ نور کے طور عزم و ہمت کی مثال بھی بنا رہا  تو مجھ سمیت  بہت سارے لوگوں نے ایسی باتوں کو ایک مذاق  سے زیادہ نہیں سمجھا۔  

 ایک دلیل یہ بھی آئی کہ اگر بولنے کی صلاحیت سے محروم سٹیفن کی  بولے بغیر  کہی بات سچی ہوسکتی  تو سعودی عرب کے سب سے بڑے مفتی عبدالعزیز  بن باز جو  پیدائشی نا بینا تھے   ان کی   دیکھے بغیر یہ بات کیسے سچی نہیں ہوسکتی کہ دنیا گول نہیں  اور نہ ہی وہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔   

سٹیفن ہاکنگ کی  سائنسی تصانیف اور تحقیقی مقالے شائد ہی ہماری جامعات تک پہنچے ہوں اور پڑھائے جاتے ہوں  مگر ان کی  وقت کی مختصرتاریخ  نامی کتاب خرید کر نہ  پڑھنے والوں میں بھی  ہم اکیلے نہیں کیونکہ دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی اس سائنسی کتاب کا ایک اور ریکارڈ یہ بھی ہے کہ یہ خریدنے کے بعد سب سے کم پڑھی گئی کتاب بھی ہے  ۔

سچی بات  تو یہ ہے کہ ہمیں وہیل چیئر پر ایک کمپیوٹر سکرین کے ساتھ  جڑا   یہ شخص انسان  سے  زیادہ ایک مشین ہی معلوم ہوا۔  اس کے بارے میں بتائی جانے والی باتیں جیسے کہ آنکھوں کی  پلکوں  کے ذریعے بولنا  اور  بغیر ہاتھوں  کو حرکت دئے کمپیو ٹر استعمال کرنا وغیرہ ایک  طلسماتی کہانی سے زیادہ نہ لگی جس میں ایک جادو گر اپنے سامنے رکھے کسی ہیرے یا موتی  میں دنیا کو دیکھتا اور کلام کرتا ہے۔

  اس کی نہ ناقابل علاج بیماری  کے زیر اثر رہتے ہوئے تحقیق  اور فلسفیانہ گفتگو بھی ایک   ایک فسانہ ہی معلوم ہوا۔ معمولی سے سر درد  میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے تو یہ کیسے   لمحہ لمحہ پگلتا ایک آدمی جو بول نہیں سکتا اور نہ ہل جل سکتا ہے   باتیں کائنات اور اس سے ماورا کی  کرتا ہے  ۔ 

علم کو ماں کی گود سے لحد تک   حاصل کرتے رہنے  اور حصول علم کے لئے چین تک جانے  کو خود پر فرض سمجھنے والے  ہم علم   اس کو نہیں کہتے جس میں کائنات کی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھاکرالحاد پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہو، ہمارے لئے علم صرف وہی ہے جس میں جو کچھ الہامی کتب میں بتایا گیا  ہےاس کی تائید ہو   ۔

ہم   تعلیم کو بھی اپنے عقیدے کے استحکام   کا ذریعہ سمجھتے ہیں یا تعلیم  سے اپنے راسخ العقیدہ ہونے کا ثبوت تلاش کرتے ہیں ۔ ۱۹۷۳ء میں آئینی طور پر ملک کو ایک مذہبی ریاست بنانے کے بعد  مذہب کی تعلیم کو لازمی قرار دیا  تو مذہبی تعلیم کو بھی  فرقوں میں تقسیم کرنا پڑ ا تاکہ علم حاصل کرنے والوں  کے ایمان سلامت رہ سکیں۔

  مذہبی تعلیم کی تقسیم نے ملک کی آبادی کو بھی تقسیم کردیا   تو نظریاتی اور فکری  انقسام  کا اظہار  ملک کی در و دیوار پر ہونے لگا  جہاں کے مکین اب ایک ملک اور معاشرے کے شہری ہونے سے زیادہ  مختلف اعتقادات کے سیاروں کے باسی ہیں۔  وقت کے ساتھ شہریوں کے درمیان  فکری اور نظریاتی خلیج جہاں کشادہ ہوتی گئی وہاں  اس کی گہرائی میں بھی گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا  اب نوبت یہ ہے کہ اس کمرہ جماعت میں  ایک ہی  کتاب سے  مذہب پڑھنے  والے بھی ایک نہیں رہے۔

حصول تعلیم کے دوران سائنس  کے مضامین بھی ہم اس لئے پڑھتے ہیں کہ اس کو پڑھنے والے کو عملی زندگی میں   روز گار اور کمائی کے زیادہ اچھے ذرائع میسر آتے ہیں۔ ہم نے بھی ایف ۔ ایس ۔ سی میں ڈاکٹر بننے کے خیال میں علم حیاتیات پڑھنے کی کوشش کی  تو ڈارون کا نظریہ ارتقاء پڑھانے والے استاد نے اپنے  اور ہمارے ایمان کی سلامتی کے لئے خبردار کیا کہ اس نظریئے کو صرف اتنا ہی پڑھنا ضروری ہے کہ امتحان پاس ہوسکے۔

  ڈارون، آئین سٹائین اور نیوٹن کو پڑھانے ولوں نے ان کے نظریات سمجھانے سے زیادہ  طلبہ کو امتحان پاس کرنے کے طریقے  بتانے کے لئے اپنے ٹیوشن سنٹروں میں بھی بڑی محنت کی۔  ہم جیسے ناہنجار بڑی مشکل سے اوسط سے بھی کم درجوں میں پاس ہونے کے بعد  سائنس کی تعلیم سے ہی تائب ہوئے  مگرکچھ لوگ جو رٹے میں  زیادہ محنتی    تھے انھوں نے ڈاکٹری کی ڈگریاں بھی لیں لیکن  ڈارون اور آئن سٹائن ان کا  بھی کچھ نہ بگاڑ سکے۔  

تعلیم کی سائنس اور فنون میں تقسیم  نے علم کے بھی دو سیارے آباد کر رکھے ہیں۔   کلیہ فنون میں معا شیات اور سیاسیات  کا انتخاب کیا تو  حالات مختلف نہ تھے۔   جب کلاس روم میں پڑھائی جانے والی   باتوں کوعملی  زندگی میں پرکھ کر کوئی سوال پوچھا جاتا تو استاد کہنا شروع ہوجاتے کہ ہر  پڑھائی جانے والی  بات کا قابل عمل ہونا ضروری نہیں ہوتا۔    یہاں بھی   طلبہ سیکھنے سے زیادہ امتحان پاس  کرنے کی فکر کرنے لگے  ۔

 حصول تعلیم  کا  سلسلہ ختم ہوتے ہی حصول روز گار کا سلسلہ شروع ہو اجو ختم ہونے کا نام  نہیں لیتا۔ سوال تو تب پوچھتے جب ہم بغرض  حصول علم   مکتب گئے ہوتے ، ہم تو حصول  تعلیم برائے روزگار اس عمل میں شریک تھے اس لئے ہمارے لئے سوال سے زیادہ جواب اہم تھا جو ہمیں امتحان میں پاس کرواکر اپنے الین  مقصد     یعنی ڈگری کو حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے۔

 دوران تعلیم ہم   نے سوال   اٹھائے اور نہ اس کا جواب تلاش کئے۔ ہمیں صرف ایک بات سکھائی گئی ہے اور وہ ہے یقین، استاد کی بتائی بات پر یقین اور اپنے اعتقادات پر یقین اور سب سے بڑھ کر اپنے راسخ ہونے پر یقین  ۔   علم کے فروغ کے بجائے اعتقاد  اور یقین کو استحکام دینے  والے نظام تعلیم  سے فارغ التحصیل ہونے والوں نے اپنے پیشہ ورانہ زندگیوں میں بھی تیقن  کو ہی  معیار بنا رکھا  ہے نہ کہ مہارت اور اہلیت کو۔ آج پاکستان  جس ادرہ جاتی  تنزلی  کے درجے پر ہے اس کی   وجہ بھی کمرہ جماعت اور نصاب تعلیم  کی نظریاتی بنیادوں پر تشکیل ہی ہے جس نے یقن کو شک برتری دی ہے۔  

ہم نے مغرب  کے الحاد سے یہ بھی سیکھاکہ  علم بے یقینی اور شک کو جنم دیتی ہے جو تلاش کی نئی راہیں ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہے۔تشکیک کی نئی جہتوں سے اٹھنے والے سوالات کے جوابات کی تلاش میں  ہر دور میں قافلے رسد گاہوں اور درسگاہوں میں آتے ہیں وہ جوابات ڈھونڈتے ہوئے نئے سولات چھوڑ جاتے ہیں یوں ہی  کن فیاکن  کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

ہم نے یہ بھی پڑھا کہ بو علی سینا، ابن رشد  اور جابر بن حیان مغرب کی درس گاہوں میں ایوی سینا، اویروس  اور  گیبر کے ناموں سے  بابائے سائنس  و فلسفہ سمجھے جاتے ہیں  جوکو ہمارے ہاں  تشکیک   پیدا کرنے کے مجرم  گردانے گئے تھے۔ اقبال نے تو کہہ دیا

مگر وہ علم کی موتی کتابیں اپنے ابا کی

جو دیکھیں  ان کو یورپ میں تو ہوتا ہے دل سیپارا  

مگر مسجد قرطبہ میں صدیوں بعد پہلی بار نماز پڑھنے کی سعادت  حاصل کرنے والے  اقبال نے یہ نہیں بتایا کہ مغرب میں فکری انقلاب برپا کرنے والے ابن رشد کواسپین کی  مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ کر نمازیوں سے ان پر تھوکوایا گیا تھا۔   علم طب  اور جراحی کے  موجد  بو علی سینا کواس کے نظریات پر  زندیقی قرار دیا گیا تھا اور ان کا علمی  خزانہ ہم تک پہنچا ہی نہیں کیونکہ   ان عظیم دانشوروں اور فلسفیوں کی کتابوں کا اصل خزانہ جو ہمارے ہاں تھا ڈھونڈ دھونڈ کر جلا دیا گیا تا کہ ہمارے ایمان سلامت رہیں جوماشاللہ اب تک  ہیں۔ 

 کیا ہم آج بھی جن کو اپنے آباء کہتے ہیں ان کو واقعی   ایسا ہی نابغہ مانتے ہیں جیسا کہ اہل مغرب نے ان کو مان رکھاہے؟   ہم میں سے شائد کسی کسی کو معلوم ہو کہ چاند پر ایک جگہ علم کیمیا کے موجد جابر بن حیان  سے منسوب ہے  اور یہ ہم نے نہیں اہل مغرب نے کیا ہے۔

ہندوستان کی آزادانہ سوچ کی فضا میں  پیدا ہونے والے ہندسوں نےعرب کے جبر میں الجبرا  کی شکل اختیار کرکے  یونان، بغداد اور خراسان    کی  منطق میں ڈھل کر فلسفہ   تشکیل دیا تو اس سے صرف انسانی عقل پر پڑے پردے کھل گئے بلکہ اجتماعی علم و شعور  کو نئے افق  بھی ملے۔    فلسفہ  کی منطق  سےسرمایہ دارانہ  مغرب میں ہونے والی علیحدگی کو  سٹیفن نے اولالذکر  کی موت قرار دیا تو   ہندسوں  کو صرف نفع اور نقصان  کی منطق سمجھنے والوں نے فلسفے کی موت کا جشن  منالیا   ۔

 سٹیفن کو نہ سمجھنے والوں میں صرف  ہم ہی نہیں اہل مغرب بھی ہیں جہاں علم  و دانش کو    نفع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔  

One Comment