پاکستان میں دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے خطرات

آصف جاوید

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ،ارسا  نے خبردار کیا ہے کہ سردیوں میں برف باری اور بارشیں کم ہونے کی وجہ سے خریف  میں پانی کے ذخائر میں  40 فیصد تک کمی  ہو سکتی ہے۔   خریف کی فصل وہ فصل ہوتی ہے جو عام طور پر برسات میں بوئی جاتی ہے اور ستمبر اکتوبر میں کاٹی جاتی ہے۔  ان فصلوں میں مشہور اجناس جوار ،باجرا ،مونگ، موٹھ ،اڑو، مکئی ، تل،   چاول وغیرہ شامل ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ  اس مرتبہ موسمِ سرما میں پہاڑوں پر برف باری کم ہوئی ہے اور بارشیں بھی معمول سے کم ہوئی ہیں۔ بارشوں اور برف باری کم ہونے کے سبب دریاؤں میں پانی کا بہاؤ معمول سے کم ہو گا۔ اس بناء پر دریاؤں میں پانی کا بہاؤ 95 ملین ایکٹر فٹ رہنے کا امکان ہے۔  جبکہ اوسطًااس موسم میں دریاؤں میں پانی کا بہاؤ 112 ملین ایکڑ فٹ تک ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ گذشتہ  سال دریاؤں میں پانی کا بہاؤ 107 ملین ایکڑ فٹ تک تھا۔ امکان ہے کہ خریف سیزن کے آغاز میں دریاؤں میں 17 ملین ایکڑ فٹ کم پانی آئے گا۔

ماہرینِ موسمیات، آبپاشی و زراعت کے مطابق  ماحولیاتی تبدیلیوں  کے اثرات پوری دنیا کے موسموں میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اور  پاکستان میں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں 15 سے 20 فیصد کمی  نوٹ کی گئی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق خشک سالی کی وجہ موسمیاتی  پیٹرن النینیو میں تبدیلیاں ہیں۔

سال 2015 سے 2017 میں موسمیاتی پیٹرن النینیو  کی وجہ سے ملک میں بارش نہیں ہو رہی ہے اور یہ خشک سالی کب تک جاری رہے گی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

1998 سے 2002 کے النینیو کے بعد پاکستان کی حالیہ تاریخ میں یہ طویل ترین خشک سالی ہے، جو تین سال کے عرصے پر محیط ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں یہ دوسری خشک سالی ہے ، جس کا پاکستان کو سامنا ہے۔  خشک سالی کی اس لہر نے انڈیا اور افغانستان کو بھی متاثّر کیا ہے۔  ورلڈ بنک نے خبردار کیا ہے کہ خشک سالی سے پاکستان کی معیشت کو کافی نقصان پہونچنے کا اندیشہ ہے۔

خشک سالی کی اس لہر نے  سال 2000-2002   میں بلوچستان اور سندھ کو  بہت بری طرح متاثّر کیا تھا۔

ہم اپنے قارئین کی سہولت کے لئے  ذیل میں ایک لنک پیش کررہے ہیں ، جس میں سادہ اور آسان گرافیکل اینی میشن  وڈیو کے ذریعے موسمیاتی پیٹرن النینیو اور  لا نینیا  کی سائنسی توجیہات پیش کی گئی ہیں۔ یہی وہ موسمیاتی پیٹرن ہیں ، جن کی وجہ سے  کرّہِ ارض پر بدترین خشک سالی اور شدید  ترین بارشیں اور سیلاب آتے ہیں۔

 قارئین اکرام ، خشک سالی، شدید بارشیں، سیلاب ،  طوفان ، زلزلے، جنگل کی آگ ، یہ سب قدرتی آفات ہیں۔ مگر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقّی  کے بعد دنیا کے اکثر ممالک نے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے  انتظامات اور حکمتِ عملی اپنا کر اپنے مسائل کا حل نکال لیا ہے۔  ۔ پوری دنیا میں جاپان سے زیادہ زلزلے کسی ملک میں نہیں آتے، مگر جاپانیوں نے زلزلوں سے نمٹنے کے لئے سیسمِک سرویلینس، سٹرکچرل  اینڈ ڈیزائن انجینئرنگ کو اپنا کر اپنے مسائل کا حل نکال لیا ہے۔

ہمارے بچپن میں سب سے زیادہ سیلاب چین میں آیا کرتے تھے، مگر چین نے اپنے دریا ؤں کی مٹّی نکال کر کناروں پر پشتے بنا کر دریا گہرے کرلئے ہیں،  اورسینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر   شدید بارشوں  کے بعد سیلاب  کے پانی کو زخیرہ کرنے  اور بجلی پیدا کرنے کے  وافر انتظامات کرلئے ہیں۔

ادھر ہماری یہ حالت ہے کہ  ہم نہ تو بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کر سکتے ہیں نہ ہی سیلاب روک سکتے ہیں۔ ہمارے آبی ذخائر کی گنجائش اتنی محدود ہے کہ ہم اوسطً 30 دن  سے زیادہ کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت  نہیں رکھتے ہیں۔  دنیا بھر میں  یہ اصول رائج ہے کہ دستیاب پانی کا 40 فیصد تک  ذخیرہ کر لیا  جاتا ہے۔ جب کہ  پاکستان دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کرسکتا ہے۔

پانی ذخیرہ کرنے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سالانہ 29 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع کرتا ہے جبکہ دنیا بھر میں دریائوں کے فاضل پانی کو سمندر میں  ڈالنے کی اوسطاً شرح 8.6 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ پاکستان میں آبی ذخائر نہ  ہونے کی وجہ سے سالانہ 21 ارب ڈالر مالیت کا پانی سمندر میں  گرتاہے۔ تمر کے جنگلات، اور آبی حیات کی نشو نما کے لئے دریا کے پانی کا سمندر میں گرنا بھی ضروری ہے، مگر اس قدر نہیں کہ سارا پانی ہی سمندر کی نذر کردیا جائے۔

اب تو پاکستان میں پانی ذخیرے کرنے کے لیے دو بڑے ڈیم تربیلا اور منگلا میں بھی مٹی بھرجانے کی وجہ سے اپنی گنجائش سے 20 فیصد کم پانی ذخیرہ کرتے ہیں۔   یہ ایک ایسے ملک کا حال ہے، جس کی 50 فیصد آبادی زرعی معیشت پر انحصار کرتی ہے۔  ہمارے پاس اس صورتحال پر افسوس کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہے۔  کیونکہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کے نزدیک ملک کی معیشت سے زیادہ ، ملک کا دفاع اہم ہے۔  ہم فلاحی ریاست میں نہیں بلکہ عسکری ریاست میں رِہ رہے ہیں۔

https://oceanservice.noaa.gov/facts/elninolanina/otkn_721_elninolanina_lg.mp4 

Comments are closed.