ایک زرداری سب پہ بھاری

انور عباس انور

ہزاروں سازشوں ،کوششوں کے باوجود سینٹ کے انتخابات منعقد ہوگئے۔ سازشیوں کی ہرممکن کوشش تھی کہ سینٹ کے انتخابات نہ ہوں اور جمہوریت کی ٹرین پٹری سے اتر جائے۔بار بار دعوے کیے گئے کہ سینٹ کے انتخابات کا امکان ممکن نہیں بلکہ خود کو پاکستانی سیاست کے یہ بھی ’’ کنگ میکرز‘‘ کہلانے والوں نے تو یہاں تک پیشن گوئی کردی تھی کہ پاکستان میں عام انتخابات کا منعقد ہونا دکھائی نہیں دیتا۔ اس حوالے سے حالات ایسے بھی بنا دئیے گئے کہ لگنے لگا کہ ٹیکنوکریٹس یا بنگلہ دیش ماڈل یعنی ججز کی غیر معینہ مدت کے لیے حکومت لائی جا رہی ہے۔

پاکستان کو جمہوریت سے محروم کرنے کی جدوجہد تو زرداری حکومت کے دوران ہی شروع کر دی گئی تھی لیکن زرداری صاحب کی فہم و دانش سے اس جدوجہد کو جام کردیا اور اپنی مدت پوری کرکے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کیا۔ اور ایک سول حکومت کا سول حکومت کو اقتدار کی منتقلی سے ایک نیا باب رقم کیا۔

آصف علی زرداری نے سیاست میں متحرک ہوتے کہا تھا کہ اب سیاست کر کے دکھاؤں گا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ وہ نواز لیگ کی حکومت کو گرانے کا ہنرجانتے ہیں ،پھر ایک دن بلوچستان کی صوبائی حکومت کے خلاف اسمبلی اور نواز لیگ کے ارکان اپنے ہی وزیر اعلیٰ کے خلاف میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ ثناء اللہ زہری کو عدم اعتماد سے بچنے کے لیے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔

اس سارے کھیل کے پس پردہ آصف علی زرداری کا نام لیا جانے لگا۔ پھر سارے عالم نے دیکھا کہ بلوچستان کی نومنتخب حکومت وزیر اعلیٰ سندھ کی دعوت میں شریک ہوئی۔

اب کہا جاتا ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں تاریخ کی بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی، ارکان کو خریدنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہا یاگیا ۔ اگر ارکان نہ بکنا چاہیں تو کوئی مائی کا لعل انہیں نہیں خرید سکتا۔سول کیا جاتا ہے کہ خیبر پختونخواہ اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے کیسے دو نشستیں حاصل کرلیں؟ پیپلز پارٹی نے یہ نشستیں کروڑوں خرچ کرکے حاصل کی ہیں۔ 

سوال اٹھتا ہے کہ اگر پی پی پی پی نے خیبر پختون خواہ اسمبلی سے ہارس ٹریدنگ کرکے دو نشستیں جیتی ہیں تو پھر پنجاب اسمبلی سے پاکستان تحریک انصاف کے چودہری سرور نے اپنی نشست کیسے جیتی؟ پیپلز پارٹی کے مخالفین تحریک انصاف والے پیپلز پارٹی کی نشستوں کو ہارس ٹریڈنگ سے تعبیر کرتے ہیں مگر اپنی جیت کو کہتے ہیں کہ ارکان پنجاب اسمبلی نے اپنے ضمیر کے مطابق حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔

ایم کیو ایم بھی چارپانچ ٹکڑوں میں بٹنے کے باوجود کہتی ہے کہ اس کے آٹھ دس ارکان نے اپنے ووٹ فروخت کیے ہیں۔ جبکہ ایم کیو ایم (فاروق ستار) اپنی اداؤں پر غور کرنے کو تیار و آمادہ نہیں۔اتنے سارے گروپس میں تقسیم ہوتے دیکھ کر درد دل رکھنے والے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے مناسب خیال کیا کہ ووٹ ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ استعمال کرلیا جائے۔

پیپلز پارٹی والے نعرہ لگاتے تھے کہ ’’ ایک زرداری سب پے بھاری‘‘ مجھ سمیت بہت سارے لوگ سوچتے تھے کہ پیپلز پارٹی جو بقول ناقدین اپنے آخری سانس لے رہی ہے۔آصف زرادری کیسے پنجاب میں حکومت بنانے کے اپنے دعوی دعوی کو سچ کردکھائیں گے؟ابھی تک تو الیکٹرانک میڈیا کہہ رہا ہے کہ آصف علی زرادری نے خیبر پختونخواہ اور سندھ اسمبلی میں حساب کتاب کے برعکس نشستیں لیکرسب کو حیران کردیا ہے۔

ٹی وی ٹاک شوز میں تمام اینکرز اور مہمان بڑے دھڑلے سے کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ 25 25 کروڑ میں ارکان خریدے گئے ہیں لیکن کوئی ایک شخصیت بھی اس ہارس ٹریڈنگ کا ثبوت پیش نہیں کررہی۔ جس سے ہارس ٹریڈنگ کے دعوؤں اور باتوں پر سوالیہ نشان کھڑے ہورہے ہیں۔ الزام لگانا تو جمہوریت دشمنوں کا مقبول ، محبوب اور دیرینہ مشغلہ ہے۔

سینٹ انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اگلے مرحلے پر بحث ہورہی ہے، چیئرمین سینٹ کون ہوگا۔ آج کا مقبول ترین موضوع یہی ہے۔ جوڑتوڑ اور ارکان سینٹ کی خریداری کی خبریں بھی زبان زدعام ہیں۔ سیاسی جوڑ توڑ کرنا ہی تو سیاست ہے۔سیاستدان سیاست نہیں کھیلیں گے تو کیا کھیلیں گے؟ ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ اپنا سینٹ کا چیئرمین منتخب کروائے۔ 

کہا جا رہا ہے کہ نواز لیگ پرویز رشید اور مشاہد حسین سید میں سے کسی ایک کو سینٹ کا چیئرمین منتخب کرانے کی کوشش کرے گی جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حوالے سے رحمان ملک، شیری رحمان اور رضا ربانی کے نام لیے جا رہے ہیں۔ اطلاعات یہ بھی آ رہی ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے پیپلز پارٹی کو پیشکش کی ہے کہ وہ رضا ربانی کو متفقہ چیئرمین سینٹ بنانے کے لیے تیار ہے۔ پیپلز پارٹی کو اے این پی،مولانا فضل الرحمان اور عمران خاں کی حمایت ملنے کی بھی باتیں ہورہی ہیں۔ اگر عمران خاں نے پیپلز پارٹی سے ہاتھ نہ ملایا تو پیپلز پارٹی نواز لیگ کی طرف دست تعاون بڑھا سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو پھر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے سابقہ حلیفوں کی باوجودگی میں دیگر سے تعاون کی ضرورت نہ رہے گی۔گیند اب پیپلز پارٹی کی کورٹ میں ہے۔

پھر خیال ہے کہ بلوچستان اور فاٹا کے نومنتخب سینٹرز پیپلز پارٹی سے بغلگیر ہوں گے اور چیئرمین سینٹ اس نئے اتحاد کا منتخب ہوگا جس میں پیپلز پارٹی، بلوچستان ،فاٹا ،مولانا فضل الرحمان اور اے این پی شامل ہونگی۔ باقی سیاست اور کرکٹ میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ پاکستان کی سیاست میں سب کچھ ہوسکتاہے۔جو بھی سینٹ حکومت حاصل کرے ہمیں اس سے کیا غرض لیکن ایک بات ضرور کہوں گا کہ آصف علی زرداری نے ’[ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کے نعرے کو سچ ثابت کردکھایا ہے سینٹ انتخابات میں سب کو حیرانی میں مبتلا دیکھ کر دل کرتا ہے کہ میں بھی نعرہ بلند کروں کہ زرداری زرداری ہے اور سب پے بھاری ہے۔

One Comment