صرف محمود خان اچکزئی صاحب پر اتنا غصہ کیوں؟؟

اصغر علی بھٹی نائیجر مغربی افریقہ

آج کل سوشل میڈیا پر مذہبی حلقوں کی طرف سے ایک ویڈیو بہت شئیر کی جارہی ہے جس میں نوازشریف صاحب کے ایک طرف جناب محمود خان اچکزئی صاحب اور ظفر اقبال جھگڑا صاحب براجمان ہیں جبکہ دوسری طرف ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نوز صاحبہ اور دوسرے بہت سارےلوگ تشریف رکھتے ہیں۔

ویڈیو میں اچکزئی صاحب ارشاد فرمارہے ہیں کہ ’’ یہ اتنا پکا قانون ہے کہ عوام کی طاقت کے بغیر کوئی پیغمبر بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ‘‘ اس ویڈیو کے نیچے کمنٹس میں کوئی غلیظ زبان استعمال کر رہا ہے تو کوئی سخت الفاظ۔ کوئی اسے پیغمبروں کی توہین قرار دے رہا ہے تو کوئی اسے نواز شریف کی چاپلوسی کی انتہا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ۔میں نے اس ویڈیو کو کئی بارسنا اور سمجھنا چاہا کہ کہ اس بیان میں ناراض ہونے کی کتنی وجوہ ممکن ہیں ؟ 

نمبر1۔۔۔ اس کے الفاظ وکلام توہین آمیز ہیں 
نمبر2۔۔۔ کلام کرنے والا شخص ،کوئی غیر مسلم ،ملحد یا مشرک اور دشمن اسلام ہے 

اب نمبر 2 تو واضح ہے کہ محمود خان اچکزئی سکہ بند سرکاری مہر یافتہ مسلمان ہیں ۔نہ مشرک نہ کافر نہ ملحد نہ دشمن اسلام ۔آپ اور آپ کے خاندان کے 9 افراد حکومت پاکستان کے اُن اہم عہدوں پر سرفراز ہیں جہاں تک ایک کافر پاکستانی کی رسائی ممکن ہی نہیں ۔ اس لئے یہ آپشن تو مکمل طور پر رد ی کی ٹوکری کا نوالہ ہے ۔

رہی نمبر 1 کی بات، تو اس سےملتے جلتے الفاظ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر الفاظ تو ہمارےعلمائے کرام سیرت النبی کے نام پر نہ صرف سیرت النبی کے جلسوں میں بلکہ آرمی کیڈٹ کیمپوں میں ہونے والے سیرت سیمینارز میں بھی بڑے لہک لہک کر سناتے رہتے ہیں۔ پھر ناراضگی کی وجہ چہ معنی است؟

مثلاً مولانا مودودی بھی تو محمودخان اچکزئی کی طرح عوامی طاقت کو ہی پیغمبروں کے انقلاب کی بنیاد قرار دیتےہیں بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ کر یہ اعلان فرماتے نظر آتے ہیں کہ اگر عربوں کی خاندانی سرشت میں بہترین انسانی عادا ت یعنی شجاعت ، بہادری ، مہمان نوازی ، اپنے مئوقف پر ڈٹ جانا ،جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی اپنے حلیف کا ساتھ دینا وغیرہ وغیرہ نہ ہوتیں تو شایدہمارے نبی پاک وہ اسلامی انقلاب لا ہی نہ سکتے جو وہ لائے۔

مودودی صاحب کا یہ بیان سامنے آنے پر انڈیا کے مشہور رسالے جام نور کے ایڈیٹر اور مشہور بریلوی عالم دین جناب ارشد القادری صاحب نے فوری طور پر جناب مودودی صاحب پر پکڑ کرتے ہوئے انہیں متنبہ کیا مگر نہ مودودی صاحب نے اور نہ جماعت اسلامی نے اپنے اس مئوقف میں تبدیلی کی ۔بلکہ آج بھی مودودی صاحب کی جماعت کا یہی مئوقف ہے۔ اور کسی مولانا کو کوئی اعتراض نہیں۔مولانا ارشد القادری صاحب فرماتے ہیں
’’
اسلامی انقلاب نبی پاکؐ کاکمال نہ تھا بلکہ بہترین عرب انسانی مواد کی وجہ تھا۔۔۔۔ فرمان مولانا مودودی صاحب
شقاوت فکر کی ایک خون آشوب داستان سنیئے:۔

’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ صلاحیتوں پر ان الفاظ میں نکتہ چینی کرتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں جو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اس کی وجہ یہی تو تھی کہ آپ کو عرب میں بہترین انسانی مواد مل گیا تھا۔اگر خدانخواستہ آپ کوبودے۔کم ہمت۔ضعیف الارادہ اور ناقابل اعتماد لوگوں کی بھیڑ ملی جاتی تو کیا پھر بھی وہ نتائج نکل سکتے تھے‘‘۔
(
تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں صفحہ17)

کیا سمجھے آپ؟

کہنا یہ چاہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوعرب میں جوزبردست کامیابی حاصل ہوئی اس میں خدا کی غیبی تائیدوں۔حضور اکرم کی پیغمبرانہ صلاحیتوں۔کائنات گیر عظمتوں اور کلمہ حق کی روشن صداقتوں کو قطعاً کوئی دخل نہیں تھا۔حسن اتفاق سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی استعداد کے لوگ مل گئے تھے اس لئے حضور کامیاب ہوگئے۔اگر خدانخواستہ اس طرح کے لوگ نہ ملے ہوتے تو معاذ اللہ حضور کی ناکامی رکھی ہوئی تھی۔یعنی ساری خوبی مومن بننے والوں کی تھی ۔مومن بنانے والے کے اندر کوئی کمال نہ تھا۔لا اِ للہ الا اللہ کتنے صاف اور صریح طور پر کمالات نبوت اور آیات الہی کا انکار کردیا گیا۔کیا اس سے بھی زیادہ دلیری کے ساتھ کوئی دشمن اسلام،رسالت کی روشن تاریخ کو مسخ کرسکتا ہے۔اور پھر کیا خدا اور رسول کی تنقیصِ شان اور کفران نعمت کے لیے اس سے بھی زیادہ کوئی شرمناک پیرانہ اختیار کیا جاسکتا ہے‘‘۔(جماعت اسلامی مصنف علامہ ارشد القادری جمشید پورصفحہ45-46شائع کردہ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی کچا رشید روڈ بلال گنج لاہور ایڈیٹر جام نور)۔

پھر محمود خان اچکزئی پر ناراض ہونے والے دوستوں کے لئے مزید عرض ہے کہ کاکول اکیڈمی ایبٹ آباد میں جناب سید واجد رضوی نے فوجی جوانوں کے سامنے سیر ۃ النبی پر تقریر کی جسے بعد میں ’’رسول اللہ صلی علیہ وسلم میدان جنگ میں ‘‘ کے نام سےمقبول اکیڈمی199سرکلر روڈ چوک انار کلی لاہور نے کتابی شکل میں شائع کیا۔ اور ایک بریگیڈئیر جناب گلزار احمد صاحب نے اس کتاب کا پیش لفظ تحریر فرمایا ۔

اپنی اس تقریر میں جناب رضوی صاحب نے ارشاد فرمایا کہ آپ صلعم کا انقلاب صرف عوامی طاقت سے نہیں پھوٹا بلکہ اُس عوامی طاقت سے جو تلوار سے مسلح تھی۔ چنانچہ وہ آپ کی قوت قدسیہ کا انکار کرنے کے لیے عرب بہادروں کی عوامی طاقت کی بجائے عربی تلوار کا سہارا لیتے ہیں۔اور جوں عرب کے بیابانوں میں پھوٹنے والے انقلاب کو نہ صرف تلوار کی برکت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں بلکہ آپؐ کی 13سالہ مکی زندگی کو ناکام او رسعی لاحاصل کانام دے رہے ہیں چنانچہ سید واجد رضوی صاحب اپنے خطاب مبارک میں ارشاد فرماتے ہیں ۔

’’دنیا ہمیشہ قوت کے آگے سر تسلیم خم کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ رسول عربیؐ نے جو پیغام نہایت لطف وکرم کے ساتھ دیا عرب نے تیرہ برس تک اس کو نہیں سنا او راسی وجہ سے آپ کو تلوار کی زبان سے یہ پیغام دینا پڑا اور اسی اصول فطرت کی بناء پر دس سال تک معرکہ جہاد وقتال جاری رہا‘‘۔(صفحہ44-45شائع کردہ مقبول اکیڈمی199سرکلر روڈ چوک انار کلی لاہور)۔

سید واجد رضوی یہیں پر بس نہیں فرماتے بلکہ مزیدفرماتے ہیں کہ قوت قدسیہ۔سمجھانا۔تذکیر۔دعائیں۔معجزے سب بے اثر اور بے وقعت چیزیں ہیں۔حتیٰ کہ عوامی طاقت بھی نہیں ۔صرف وہ عوامی طاقت جو تلوار سے مسلح ہوکیونکہ اصلی طاقت تلوار کی طاقت ہے۔امن۔زندگی۔حکومت عافیت سب تلوار سے ملتے ہیں۔اور زندگی کی اصل ضامن تلوار ہے۔دنیا میں اگر کوئی طاقت ہے جو کبھی کمزور نہیں پڑتی تو وہ تلوار کی طاقت ہے۔آپ کا ارشاد زیر عنوان’’تلوار کی طاقت‘‘ملاحظہ ہو۔

’’دنیا کی اصل طاقت تلوار کی طاقت ہےدرحقیقت امن وعافیت،زندگی اور حکومت اور مال ودولت کی حفاظت کے لیے تلوار کی ضرورت ہوتی ہے اور تاریخ عالم بتاتی ہے کہ اصل طاقت تلوار کی طاقت ہے اور زندگی کاسرچشمہ آب حیات خون کی ندیوں اور فواروں میں ہی رہا ہے۔دنیا میں آج تک کوئی دور ایسا نہیں گزرا کہ جب تلوار کی طاقت کمزور پڑگئی ہو۔یا خون کی ندیوں اور فواروں سے حیات بخشنے کی تاثیر زائل ہوگئی ہو۔وہ لوگ بہت مقدس ہیں جو سطح ارض کوخوں ریزی سے پاک کرکے اسے معصوم فرشتوں کی دلفریب جنت میں بدل دینا 

چاہتے ہیں اور مجلس اقوام متحدہ کی ٹھنڈی چھائوں میں بیٹھ کر ایسے مسائل کا حل چاہتے ہیں جن کا حل تاریخ اور قدرت نے ہمیشہ جنگ کے میدانوں میں ہی پیش کیا ہے۔اس حسین تصورّ پر کون فریفتہ نہ ہوگا۔لیکن اس کو کیاکیجئے کہ دنیا آرزئوں اور تمنائوں کی نہیں تلخ حقائق کی جگہ ہے جہاں تلوار ہی زندگی کی ضامن ہے‘‘۔ ( رسول اللہ صلی علیہ وسلم میدان جنگ میںصفحہ60-61)۔
کسی ایسے ہی موقع پر فیض صاحب نے یہ اشعار کہے تھے کہ :۔

میری چشم تن آساں کو بصیرت مل گئی جب سے
بہت جانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
بجز دیوانگی واں اور چارہ ہی کہو کیا ہے؟
جہاں عقل و خرد کی ایک بھی مانی نہیں جاتی

Comments are closed.