پہلے لوگ دہشت گردوں سے ڈرتے تھے، اب ریاستی اداروں سے ڈرتے ہیں

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آج بھی جبری گمشدگیوں کے واقعات ختم نہیں ہو پائے اور وہ لوگ جو فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں یا پھر پاکستان کے روایتی حریف بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی بات کرتے ہیں، انہیں زبردستی اٹھا لیے جانے کا خدشہ رہتا ہے۔

اس موضوع پر ڈی ڈبلیو نے سلمان حیدر سے گفتگو کی جنہیں گزشتہ برس اسلام آباد سے نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد حیدر اپنے گھر واپس پہنچ گئے تھے۔ اب وہ ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان ميں اب بھی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں وہ لوگ دیکھے گئے، جو اپنے گمشدہ رشتہ داروں کی تصاویر لیے کھڑے تھے۔

سندھ ميں قوم پرستوں کی بھی شکايت ہے کہ ان کے لوگوں کو اغواء کر ليا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ایسے کیسز کو رپورٹ کرنا بین الاقوامی اور مقامی میڈیا کے لیے بہت مشکل ہے کیوں کہ انہیں وہاں جانے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ میرے اور دیگر بلاگرز کی جبری گمشدگیوں کے واقعات پنجاب میں پیش آئے اور وہ سوشل میڈیا کی وجہ سے منظر عام پر آئے‘‘۔

حیدر کہتے ہیں کہ انہیں ایسا ہی لگتا ہے کہ ان کی گمشدگی میں کوئی فوجی ایجنسی ملوث تھی کیوں کہ ان سے فوج پر تنقید کے بارے میں پوچھ گچھ کی جاتی رہی۔ بلاگر سلمان حیدر مزيد کہتے ہیں کہ حکومت اب تو اپنی جان بچاتی پھر رہی ہے لیکن جب صورتحال اتنی خراب نہیں تھی تب بھی حکومت نے کچھ نہیں کیا تھا کیوں کہ وہ بھی فوج سے ٹکراؤ نہیں چاہتی۔ ان کے بقول جن لوگوں کو رہا کر دیا جاتا ہے، وہ اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ خاموشی اختیار کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔

اس پاکستانی بلاگر کے بقول اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو شاید وہ بھی اس موضوع پر ڈی ڈبلیو یا کسی اور میڈیا سے گفتگو نہ کرتے۔ حیدر سمجھتے ہیں کہ اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے اغواء کی خبريں منظر عام پر نہیں آتیں اور پاکستان میں کم از کم اردو میڈیا اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔

صحافی امتیاز عالم نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ پاکستان میں اب زندگی کا تحفظ مشکوک ہو گیا ہے۔ پہلے لوگ دہشت گردوں سے ڈرتے تھے اب ریاستی اداروں سے ڈرتے ہیں۔ شکوک و شبہات اور خوف کی فضا بڑھ گئی ہے، اختلاف رائے کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔‘‘ عالم کہتے ہیں ابھی  لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف پر عدلیہ مخالف تقریر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ خیالات کے اظہار پر عدلیہ بھی قدغن لگا رہی ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں اغواء کی ایک مبینہ کوشش میں بچ جانے والے صحافی طٰحہ صدیقی اب فرانس میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اکثر پیسوں، زمین یا پڑوسیوں کے جھگڑوں کا بدلہ لینے کے لیے توہین مذہب کا قانون استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قانون سے مذہبی انتہا پسندی کو بھی فروغ ملتا ہے کیوں کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مجرم کو خود سزا دے سکتے ہیں۔‘‘

ڈی ڈبليو سے توہين مذہب کے قانون کے بارے ميں گفتگو کرتے ہوئے سلمان حيدر نے مزيد کہا، ’’اس قانون پر بات ہونی چاہیے۔ خادم رضوی کے دھرنےکے بعد اب توہین مذہب کے قانون پر گفتگو کرنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ اس قانون میں سقم بھی ہیں جس پر ماہرین  نے کام کیا ہوا ہے لیکن اب پاکستان میں ایسا ماحول نہیں ہے کہ اس قانون پر بات تک کی جاسکے۔‘‘ حیدر کے بقول یہ بات کسی سے نہیں چھپی ہوئی ہے کہ اس قانون کو اقلیتوں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے اور کوئی بھی ایک گروہ یا کوئی فرد اس قانون کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔

توہین مذہب قانون کے حوالے سے امیتاز عالم کا بھی موقف يہی ہے کہ اب پاکستان میں اس موضوع پر گفتگو کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ طٰحہ صدیقی نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جیسے ہی پاکستان کی سول حکومتیں توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی بات کرتی ہیں تو فوج کی جانب سے مذہبی گروہوں کو سامنے لایا جاتا ہے اور يہ عمل سویلین حکومتوں کو کمزور کر دیتا ہے۔

حال ہی میں ایک مذہبی گروہ نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔ اس گروہ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا تھا اور پاکستان کی فوج نے ہی اس گروہ اور حکومت کے درمیان مصالحت کرانے کا کردار ادا کیا تھا‘‘۔

DW

Comments are closed.