تاریخ کی چھاؤں میں

ڈاکٹر مبارک علی



تبصرہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ

ڈاکٹر مبارک علی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ مورخین کے اس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جو بر صغیر کی تاریخ ومعاشرت کو سیکولر اورمعروضی نظر سے دیکھتے اور اس کا تجزیہ کرتے ہیں ۔شخصیات ہوں یا افکارو نظریات وہ انھیں تقدیس کا لبادہ پہنانے کی بجائے ان کا تجزیہ زمینی معاشی،سماجی اور ثقافتی حقایق کے سیاق و سباق میں کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کے تصور تاریخ میں بادشاہوں، شاہی خاندانوں اور حکمرانوں کے محلات میں ہونے والی سازشوں کے بیان کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اس کے بر عکس تاریخ سازی میں عوام کے کردار اور ان کی جد وجہد کو بنیادی مقام دیتے اور اسے اجاگر کرتے ہیں ۔ڈاکٹر مبارک علی کا تاریخی بیانیہ عام آدمی کو بے بس اور لاچار بنانے کی بجائے اسے سماجی تبدیلی کے لئے اکساتا اور متحرک کرتا ہے ۔

ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی تحریروں کے ذریعے قوم پرستی اور مذہبی جنونیت کے زیر اثر لکھی جانے والی تاریخ کا ابطال کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مبارک علی جب بانی پاکستان محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے بارے میں ریاستی بیانیہ سے مختلف حقائق بیان کرتے ہیں تو بہت سی جبینیں شکن آلود ہوجاتی ہیں۔ 

زیر نظر کتاب ’تاریخ کی چھاؤں میں‘ ڈاکٹر مبارک علی کے ان انٹرویوز کا مجموعہ ہے جو ڈاکٹر بلند اقبال نے کنیڈا کے راول ٹی۔وی کے لئے کئے تھے۔ہمارے ہاں علمی موضوعات پر انٹرویوز کی روایت بہت کم زور ہے جس کی وجہ سے سنجیدہ امور پر بحث و تمحیص نہیں ہوتی اور عام آدمی سیاسی،سماجی اور معاشی مسائل کے حوالے سے کسی با معنی رد عمل کی بجائے نعرہ بازی کے گرداب میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔

ڈاکٹرمبارک علی کے یہ انٹرویوز موضوعات کے اعتبا ر سے تین حصوں میں منقسم ہیں۔ پہلے حصے میں انھوں نے پاکستان کے چاروں صوبوں۔ سندھ،پنجاب، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کی تاریخ اور ان کے تاریخی ارتقا کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا احاطہ کیا ہے۔دوسرے حصے میں فلسفہ کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔ اس حصے میں شامل انٹرویوز میں یونانی ، ہندوستانی اور اسلامی فلسفہ کو موضوع گفتگو بنایا گیاہے۔ تیسرے حصے میں ڈاکٹر مبارک علی نے بھارت اور پاکستان میں جمہوری تحریک اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ لیا ہے ،سیکولرازم اور تہذیبوں کے تصادم پر روشنی ڈالی ہے اور یہ فکری مغالطہ کہ ہندو،یہودی اور مسیحی مسلمانوں کے دشمن ہیں، کو مسترد کیا ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی کے نزدیک سندھ کی شناخت کی سب سے بڑی علامت وادی سندھ کی تہذیب ہے جس کا دورانیہ پانچ ہزار سال ہے اور یہ تہذیب اپنی قدامت کے اعتبار سے میسوپیٹیمیا اور مصر کی تہذیبوں کی ہم عصر ہے۔وادی سندھ کی یہ تہذہب بلوچستان،پنجاب،گجرات( موجودہ بھارت) اور مدھیہ پردیش تک پھیلی ہوئی تھی ۔اس تہذیب کے پھیلاؤ میں کہیں جنگوں کے آثار نہیں ملتے اورنہ ہمیں مہلک ہتھیاروں کا نام و نشان ملتا ہے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب کی بنیادیں جبر کی بجائے پر امن ثقافتی اقدار پر قائم تھیں اور یہ امن و آشتی پر مبنی ثقافتی اقدار ہی تھیں جنھوں نے ان خطوں کو باہم مربوط کر رکھا تھا۔

سندھ میں اسلام کسی طرح پھیلا ؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ سندھ کا سماج چونکہ قبائلی تھا اس لئے عربوں کے اقتدار میں آنے کے بعدجب قبائل کو تحفظ کی ضرورت محسوس ہوئی اور ان کے سردار نے اسلام قبول کر لیا تو اس کے ساتھ ہی اس کے قبیلے نے بھی اپنے سردار کی پیروی کی اور اسلام قبول کر لیا تھا۔لہذا یہاں اسلام کسی تبلیغ کے ذریعے نہیں پھیلا اور نہ ہی ریاست نے لوگوں کو زبر دستی مسلمان بنانے کی کوشش کی تھی۔

ہندوستان سے نقل مکانی کرکے آنے والے سندھی سماج میں کیوں ضم نہیں ہوئے، اس بارے ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ’ ایک تو ان میں تہذیبی برتری کا احساس تھا اوردوسراان کی اکثریت سندھ کے شہروں میں آباد ہوئی تھی جس کی وجہ سے سندھیوں سے ان کے تعلقات کم سے کم تھے اور اسی لئے انھوں نے سندھی زبان اور ثقافت کو اختیار کرنے کو ضروری نہیں سمجھا۔

پنجاب وادی سندھ کی تہذیب کا اہم مرکزرہا ہے ۔پندرہ سو سال قبل از مسیح آریاؤں کی پنجاب میں آمد شروع ہوئی تھی اور ان کی سب سے پہلی کتاب رگ وید جس میں ان کے عقائد اور رسوم و رواج کا تذکرہ ملتا ہے ،پنجاب ہی میں لکھی گئی تھی۔پنجاب کی تاریخ کا ایک اہم باب وہ ہے جسے ہم رنجیت سنگھ کا دور حکومت کہتے ہیں۔ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر حملہ آور ہونے والی بیرونی فوجوں کو روکا اور ہندوستان میں انگریزوں کی بڑھتی ہوئی قوت سے معاہدے کرکے پنجاب کو ان سے محفوظ کیا تھا ۔ 

انگریز سرکار نے پنجابی فوجیوں کو دنیا بھر میں اپنی سلطنت کی توسیع اور حفاظت کے لئے پوری طرح استعمال کیا ۔پنجابی فوجی انگریزوں کے لئے برما،ملایا، افغانستان اور افریقہ کے ممالک میں لڑے اور جانیں دیں۔پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں پنجابی جاگیرداروں نے پنجاب کے نوجوانوں کو زبردستی انگریزی فوج میں بھرتی کروایا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ کا ایندھن بنے تھے۔

خیبر پختون خواہ کا نام چند سال پہلے تک صوبہ سرحد تھا ۔ یہ صوبہ رنجیت سنگھ کی ریاست کا حصہ تھا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے اسے صوبہ کا درجہ دیا تھا۔پٹھانوں کی نسلی تاریخ کے بارے دو نکتہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔کچھ محققین کہتے ہیں کہ پٹھان یہودیوں کا گمشدہ قبیلہ ہے۔ لیکن اب جو جدید تحقیق ہوئی ہے اس کے مطابق افغانوں کا تعلق آریائی نسل سے ہے۔یہ ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے ہندوستان آئے تھے۔

وسط ایشیا سے آنے والے کشان حکمران کنشک جس نے بدھ مت اختیار کر لیاتھا، نے پشاور شہر بسایا تھا۔ خیبر پختون خواہ بدھ مت کا بہت بڑا مرکز رہا ہے ۔سوات کی پہاڑیوں میں کئی ایسے غار ملے ہیں جہاں بدھ مت کے بھکشو عبادت و ریاضت کیا کرتے تھے ۔بدھ مت کی بدولت اس علاقے کی تہذیبی ترقی ایک مخصوص انداز میں ہوئی تھی اور اس کے بدولت اس کے تعلقات وسط ایشیا اور ایران سے قائم ہوئے تھے۔

مغلوں کاخیبر پختون خواہ سے خصوصی تعلق تھا۔ بابر نے یوسف زئی قبیلے کی مبارک نام کی عورت سے شادی کی جس کی وجہ سے مغل دربار کا تعلق یوسف زئی قبیلے سے قائم و مستحکم ہوا۔اکبر کا اہم مشیر بیر بل بھی یہاں قبائلیوں سے لڑتا ہوا مارا گیا تھاجس کو اکبر کو بہت افسوس ہواتھا۔اکبر ہی کے زمانے میں روشنیہ نام کی ایک مذہبی تحریک شروع ہوئی تھی جس کے بانی بایزید انصاری تھے اور انھوں نے اپنے عقائد کے بارے میں جو کتاب لکھی اسے پشتو زبان میں نثر کی پہلی کتاب سمجھا جاتا ہے۔ بایزید نے اپنی تعلیمات میں قافلوں کو لوٹنا اور جنگوں میں مال غنیمت حاصل کرنا جائز قرار دیا تھا۔

یہ صوبہ سرحد کی اسمبلی تھی جس نے قیام پاکستان کے وقت تقسیم کی مخالفت میں قرارداد منظور کی تھی اور یہ پہلی صوبائی حکومت تھی جس کوگورنر جنرل محمد علی جناح نے اپنے خصوصی اختیارات کے ذریعے برطرف کیا تھا اور پھر حکومتیں توڑنے اور اسمبلیاں تحلیل کرنے کی یہ روایت اتنی مستحکم ہوئی کہ پاکستان سیاست کا اہم جزو بن گئی ۔

ڈاکٹر مبارک علی کا موقف ہے کہ بلوچستان کی جو تاریخ برطانوی دور یا قیام پاکستان کے بعد لکھی گئی اس کا مرکز قبائل ہیں لہذا ہمیں اس تاریخ میں قبائلی جنگوں کا ذکر تو ملتا ہے لیکن بلوچ عوام کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں۔دراصل برطانوی عہد میں بلوچ سرداروں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی اور سنڈیمن وہ انگریز حاکم تھا جس نے بلوچ سرداروں کو اہمیت دینے کی پالیسی اپنائی تھی۔

اس کا خیال تھا کہ بلوچ قبائل سے جنگ کرنے میں حکومتی اخراجات میں اضافہ ہوگا اور قتل و غارت گری بھی ہوگی لہذا مناسب ہوگا کہ برطانوی سرکار قبائلی سرداروں سے دوستانہ روابط استوار کرے ، ان کو وظائف دے اور انھیں بااختیار بنا ئے ۔ سنڈیمن کی پالیسی تھی کہ بلوچ سردار کو مطیع بنا کر اس کے قبیلے کو قابو کیا جاسکتا ہے۔

اکبر بگٹی کے بارے میں ڈاکٹر مبارک علی کا تبصرہ بہت اہم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اکبر بگٹی ایک ظالم اور جابر سردار تھا جس کی اپنی نجی جیل تھی جو اپنے قبیلے کے لوگوں سے اس کا سلوک انتہائی بے رحم اور غیر انسانی تھا۔ سیاست میں اس کے کوئی اصول نہ تھے۔ جب اس کے مفادات ہوتے تو ریاست سے مل جاتا اور جب ضرورت ہوتی تو وہ ریاستی اداروں کے خلاف کھڑا ہوجاتا تھا۔ لیکن جس طرح اس کی موت ہوئی اس نے اس کے تمام پچھلے گناہ دھو دئیے اور یہ بطور ہیر و بلوچ عوام کے سامنے آیا ۔ اس لئے تاریخ کو ریاست ہی مسخ نہیں کرتی بلکہ بعض صورتوں میں سیاسی جماعتیں بھی یہ کام کرتی ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کے نزدیک موجودہ صورت حال میں آزاد بلوچستان کا قیام ممکن نہیں ہے۔یہ ضرور ہے کہ ریاست کی پالیسیوں سے تنگ آکر جذباتی نوجوان آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن موجودہ جیو پولیٹیکل صورت حال میں بلوچستان کے ایک آزاد ریاست کے امکانات بہت کم ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ ’ مذہب اور فلسفہ کا باہم کوئی تعلق نہ ہے یہ دونوں علیحدہ ہیں۔مذہب کی بنیاد عقیدے پر ہوتی ہے اور عقیدے پر ایمان لانے کے لئے کبھی عقل یا دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں فلسفے کا تعلق عقل و دانش سے ہے ، یہ کسی بھی مسئلے کو اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک اس کو عقلی اور منطقی جوازفراہم نہ کردے۔اس کے علاوہ فلسفہ شک و شبہ کو پروان چڑھاتا ہے ، سچائی کی جستجو میں رہتا ہے،مکمل سچائی کو قبول نہیں کرتا ۔اگر پہلے سے تسلیم شدہ سچائی غلط ثابت ہوجائے تو وہ اس تبدیلی کو تسلیم کرنے پر تیار رہتا ہے۔یہی وجہ کہ اسلام میں فلسفی نہیں متکلم پیدا ہوئے ہیں۔

سقراط نے اپنے فلسفے کو زبانی بیان کیا ہے اس نے اپنے خیالات کو تحریر ی شکل نہیں دی تھی کیونکہ وہ تحریر کے سخت خلاف تھا ۔ اس کے نزدیک اگر کسی چیز کو لکھ دیا جائے تو پھر اس میں ردو بدل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اس کا فلسفہ اس کے شاگردوں نے لکھا اس نے خو دنہیں لکھا تھا۔۔

سقراط پر قائم ہونے والے مقدمہ کے بارے میں ڈاکٹر مبارک کہتے ہیں کہ اسے جیوری نے آپشن دیا تھا کہ وہ جرمانہ ادا کرکے سزا سے بچ جائے یا جلاوطن ہوجائے یا سزائے موت قبول کرلے۔جرمانے کے لئے اس کے پاس رقم نہیں تھی ،جلاوطن وہ نہیں ہوناچاہتا تھا کہ کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ ایتھنز سے باہر جانے سے اس کی عزت ختم ہوجائے گی ۔ چنانچہ اس نے جلاوطنی کی بجائے موت قبول کرلی ۔


ڈاکٹر مبارک علی کے انٹرویوز کا یہ مجموعہ ان قارئین کے لئے ہیں جو پاکستان کی سیاست وتاریخ اور فلسفہ کے بارے میں ضغیم کتب نہیں پڑھ سکتے یا پڑھنا نہیں چاہتے ۔ یہ انٹرویو ز عام قاری کی معلومات اور علم میں اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں۔

کتاب کا نام: تاریخ کی چھاؤں میں

مصنف: ڈاکٹر مبارک علی 

پبلشر: بدلتی دنیا پبلیکیشنز مکان 133:گلی8 سیکٹر آئی ۔11،اسلام آباد( (5577993-0333)۔

One Comment