شہزادہ محمد نے چودہ سو سالوں کا سفر ایک ہی جست میں طے کر لیا ہے

محمد شعیب عادل

حال ہی میں سعودی عرب میں تاش سینٹر (کچھ اسے جوا خانہ بھی کہہ رہے ہیں) کا افتتاح خانہ کعبہ کے سابق امام کے ہاتھوں ہوا ہے۔ اس تاش سینٹر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے ۔ اور سعودی شہزادے جس مہارت سے تاش کھیلتے نظر آرہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پہلی بار نہیں کھیل رہے۔

سعودی عرب میں ہر وہ کام جو چھپ چھپا کر ہوتا چلا آرہاتھا سعودی حکومت اب اسے اوپن کرتی جار ہی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ پہلے یہی کام اشرافیہ کرتی تھی اور لطف اندوز ہوتی تھی جبکہ عوام کو ایسی حرکتیں کرنے پر سزا ملتی تھی۔

سعودی عرب میں سینما کھل رہے ہیں، امریکی گلو کار اپنے کنسرٹ بھی منعقد کر سکیں گے، خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل چکی ہے، خواتین سٹیڈیم میں میچ بھی دیکھ سکتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے دورے کے موقع پر ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور مرد دونوں برابر ہیں اور اسلام میں حجاب ضروری نہیں ایک موڈریٹ لباس کافی ہے۔

سعودی عرب نے بھی دبئی کی طرح ایسا سیاحتی مقام تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے جہاں لباس کے حوالے سے سعودی عرب کے سخت قوانین نافذ نہیں ہوں گے۔ سعودی عرب کے ولی عہد اور مستقبل کے بادشاہ کے تازہ اقدامات کی وجہ سے 21 ویں صدی میں سعودی عوام کو ریلیف ملنا شروع ہو گیا ہے۔

پہلے یہی کام اسلام کے نام پر ممنوعہ تھے اور اب یہی کام اسلام کے نام پر جائز ہو رہے ہیں۔ سعودی حکومت کی اسلام کی اس نئی تشریح کا فائدہ سعودی عوام کو تو ہور ہا ہے لیکن اس نئی تشریح نے پاکستانی علما اور ان کے حامی لوگوں کو الجھن میں ڈال دیا ہے جو اسلام کی تشریح کے لیے خاد م الحرمین والشریفن پر انحصار کرتے تھے اوراب مختلف تاویلیں یا وضاحتیں دینا شروع ہوگئے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے تو چودہ سو سالوں کا سفر ایک ہی جست میں طے کر لیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی علما اور ان کے حلیف یہ سفر طے کرنے میں کتنا وقت لگاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شہزادہ محمد بن سلمان ایک اچھے مسلمان کی طرح مذہبی انتہا پسندی پھیلانے کا الزام امریکہ پر دھر کر خود بری الذمہ ہو چکے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ ہم تو امن پسند لوگ ہیں لیکن مغرب کے کہنے پر محمد بن عبدالوہاب کے متشدد اور انتہا پسند نظریات کو فروغ دیاتھا۔ شاید تیس چالیس سال بعد ان کا کوئی بیٹا یہ کہتا نظر آئے گا کہ جمہوریت تو عین اسلام کے مطابق ہے لیکن مغربی ممالک جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ تھے۔

برصغیر کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو 1919 میں ہندوستان کے مسلمان علما نے ترکی کے خلیفہ کو بچانے کے لیے خلافت تحریک کا آغاز کیا تھا۔اس تحریک کا مقصد برطانوی حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کی خلافت کو بحال رکھا جائے۔۔یعنی حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں کی “خلافت “غیر مسلموں کے رحم و کرم پر تھی ۔ تقریباً یہی صورتحال آج بھی ہے۔

سعودی شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کو ’معتدل اسلام‘ کی طرف واپس آنا ہوگا۔ معتدل اسلام کیا ہے؟ اس کی حدود کیا ہیں؟ یہ ایک مبہم مسئلہ ہے۔ ہر گروہ اپنے آپ کو ایک معتدل اسلام کا پیروکار بتاتا ہے۔

معتدل اسلام کا تعلق سماجی ارتقا سے ہے۔ جوں جوں سماج ترقی کرتا ہے توکچھ علما کا اسلام بھی اسی ترقی کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ کچھ علما اس ارتقا کو خاطر میں نہیں لاتے اور چودہ سو سال پرانی تشریح پر ہی اصرار کرتے ہیں۔ سرسید احمد خان اور پھر غلام احمد پرویز نے بدلتے حالات کے مطابق اسلام کی تشریح کی تاکہ مغربی دنیا کے سامنےہمیں اپنی چودہ سو سال پرانی رسومات پر شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

ایک صاحب نے کہا کہ ہمیں براہ راست قرآن سے رہنمائی لینی چاہیے۔۔۔ کہنے کو تو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے۔۔۔ اور سرسید احمد خان اور غلام احمد پرویز اسی کا پرچار کرتے رہے ہیں ۔۔۔ جبکہ پاکستانی علما انہیں کافر قرار دیتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں سارا فساد ہی اس کی تشریح کا ہے ہر کوئی اپنی تشریح کو عین قرآن کے مطابق بتاتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے۔

جہاد ، اسلامی تعلیمات کا اہم رکن ہے، جس کا مطلب دنیا پر اسلام کا غلبہ ہے۔ یہ ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اب جو بنیاد پرست ہیں وہ تو تلوار کے ذریعے ہی جہاد کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں اور انہیں اس پر کوئی شرمندگی بھی نہیں۔ دوسرا طبقہ معذرت خوانہ رویے کا حامل ہے۔ اس طبقے کے مطابق جہاد صرف دعوت و تبلیغ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔

مسلمان بنیاد پرست تو دور کی بعد معذرت خواہ طبقے کو بھی ابھی جمہوریت کا تصور ہضم نہیں ہورہا۔جمہوریت کی بنیادی روح سیاست اور مذہب کو علیحدہ علیحدہ کرنا ہے اور تمام مذاہب کے افراد کو برابر سمجھنا ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان اسلام سمیت تمام مذاہب کو برابر سمجھیں۔ وگرنہ جہاد جاری رہے گا۔

5 Comments