شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

آصف جاوید

معاشرے کی تصویر کشی کے لئے سوشل میڈیا سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا ہمارے سماج کا  آئینہ بنتا جارہا ہے۔  سماج میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، سوشل میڈیا  پر نظر آجاتاہے۔   لوگ کیا سوچتے ہیں؟، لوگوں کے دلوں میں کیا چل رہا ہے؟،  سیاسی رجحانات کیا ہیں؟،  ادبی فضاء کیا ہے؟ سوِل سوسائٹی کا مختلف مسائل پر ردِّ عمل کیا ہے؟  ہماری اسٹیبلشمنٹ کا پروپیگنڈا کیا ہے؟ مختلف موضوعات اور مسائل پر  عام لوگوں کی رائے کیا ہے؟، سوشل میڈیا پر آنے والے کمنٹس اور سٹیٹس سے صاف پتا لگ جاتا ہے کہ سماجی حرکیات کی سمت و رفتار کیا ہے؟

آج کل سوشل میڈیا پر اردو بطور قومی زبان کا موضوع تختہ مشق بنا ہواہے۔ اس موضوع پر ہر کوئی اپنی بساط بھر رائے دے رہا ہے۔  کچھ لوگ اسے رابطے کی زبان قرار دے رہے ہیں، کچھ لوگ اردو کو بطور قومی زبان رائج کرنے کے حق میں دلائل  دے رہے ہیں،  کچھ لوگ اردو کو وفاقِ پاکستان کی ضمانت قرار دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ  کی رائے ہے کہ اردو کو پاکستان کی مختلف اقوام پر زبردستی مسلّط کیا گیا ہے، اردو پاکستان کے کسی بھی صوبے کی زبان نہیں ہے۔

کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ اردو صرف آٹھ فیصد اردوداں طبقے کی زبان ہے،  اسے پورے ملک  پر مسلّط  کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کچھ لوگ سقوطِ پاکستان اور بنگالیوں کی پاکستان سے علیحدگی کا ذمّہ دار  زبردستی اردو زبان کے نفاذ  کو قرار دے رہے ہیں۔  کچھ دانشوروں کی رائے ہے کہ اردو زبان  میں سائنسی مضامین کی تشریح اور سائنسی علم کی تخلیق ناممکن کام ہے۔ کچھ لوگ اردو زبان کو علاقائی زبانوں کی ترویج کے عمل میں رکاوٹیں قرار دے رہے ہیں۔

   ہمارے ایک پنجابی دانشور دوست ، جنہوں نے جنسیات کے موضوع پر  اپنی پہلی کتاب بھی اردو میں تحریر کرکے شائع کی ہے ،آج کل اردو زبان کے بارے میں کافی زود رنج  اور شاکی ہیں۔جس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر کثرت سے کررہے ہیں۔ ہمارے یہ دوست اردو کو سرِ دست زبان ہی تسلیم نہیں کرتے ، ان کا کہنا ہے کہ رابطے کی جس زبان کو ہم اردو کا نام دیتے ہیں وہ زبان نہیں، بولی ہے جسے سیکھنے کیلئے لکھت پڑھت آنا شرط نہیں۔ اور پھر ہم اصولی طور پر اسے اردو بھی نہیں کہہ سکتے ہاں بس سہولت کے لئے یہ نام ضرور دے سکتے ہیں۔

چنانچہ یہ بات سمجھنے والی ہے کہ اردو کے نفاذ کا حقیقی مطلب اس کا نصابی کتب اور ذرائع ابلاغ میں دخول ہے ،جس کا سب سے زیادہ نقصان پنجابی قوم کو ہوا۔

اپنے دعوی‘  کے حق میں ہمارے یہ دوست  یہ دلیل دیتے ہیں کہ  مادری زبان سے کٹنے کا مطلب ہے،  اپنی بنیاد سے کٹ جانا۔بنیاد  کا مطلب ہے، وہ بنیادجس میں صدیوں کی تاریخ، وسیب میں تبدیلی کا سفر، پُرکھوں کی لوک دانش سے بھری کہانیاں اور اقوال محفوظ ہوتے ہیں۔

میں   نہ تو اردوزبان کا ایڈوکیٹ ہوں، نہ ہی علاقائی  زبانوں کا مخالف ہوں۔میں بذات ِ خود اردو، پنجابی اور انگریزی روانی سے بولتا ہوں، لکھتا اور سمجھتا ہوں۔ پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کی تھوڑی بہت شدھ بدھ  بھی رکھتا ہوں، حالانکہ میری  مادری زبان اردو ہے، مگر میں ذاتی طور پر پاکستان میں بچّوں کی تعلیم کے لئے  مادری زبانوں کی اہمیت، فعالیت اور ترویج کا  زبردست حامی ہوں۔

اپنے کیرئیر کی ابتدا میں شعبہ تعلیم  سے وابستہ رہنے اور کچھ وقت گذارنے کی وجہ سے اس رائے پر سختی سے قائم ہوں کہ پاکستان کے ہر علاقے میں بچّوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے،تاکہ بچّے فطری اور جبلّی طور پر معلومات کو جذب کرسکیں،  کیونکہ ماہرینِ تعلیم و نفسیات کی یہ متّفقہ رائے ہے کہ بچّوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینا اصولِ فطرت کے عین مطابق ہے، ماہرین تعلیم و نفسیات کے نزدیک بچّوں کے ذہنی ارتقا کے لیے مادری زبان کے استعمال کو ناگزیر قرار دیا گیا ہے۔

ماہرین کے نزدیک بچوں کو بنیادی تعلیم و تربیت مادری زبان میں ہی دی جانی چاہیے تاکہ بچے اپنے کلچر اور ماحول کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور اپنی زمین اور جَڑوں سے جُڑے رہیں۔ ماہرینِ تعلیم کے نزدیک مادری زبان ہی بچے کی شخصیت کے ارتقا کا ضامن ہوتی ہے، وہی اسے انسان بناتی ہے۔ مادری زبان کسی بھی ثقافت کی روح ہوتی ہے، اور روح کے بغیر انسان زندہ نہیں ہسکتا۔ مادری زبان انسان کی شناخت ہوتی ہے، اور اپنی شناخت کھو کر کوئی بھی اپنا نام و نشان مٹانا نہیں چاہتا۔

پاکستان ایک کثیر اللّسانی ملک و معاشرہ ہے۔ یہاں اردو کے علاوہ پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچی اور دیگر علاقائی زبانیں باقاعدہ بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ زبان صرف بولنے اور رابطے کے لئے نہیں ہوتی۔ زبان کے ساتھ ایک پوری ثقافت، رِہن سِہن، بود وباش، معاشرتی حرکیات جڑی ہوتی ہے۔ زبان، روایات، ثقافت، احساسات و جذبات کی ترجمانی، اظہارِ جذبات اور رابطے اور شخصیت کا ایک مکمّل پیکیج ہوتی ہے۔

 پاکستان میں بولی والی جانے والی علاقائی زبانیں اپنے معروضی ماحول، ثقافت، رسم و رواج سے جڑی ہوئی ہیں۔ تمام پاکستانی زبانیں بقائے باہی کے اصول کے تحت ، آپس میں رابطے، اشتراک، جذب و انجذاب، پر چل رہی ہیں۔ کہیں کوئی تصادم نہیں ہے۔ صوفیا کرام کی تعلیمات ، لوک کہانیاں و گیت، اور علاقائی کلاسیکی ادب و موسیقی ان تمام زبانوں کو زندہ رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہی ہیں۔

اردو قومی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ انگریزی بین الاقوامی رابطوں اور اعلی ٰتعلیم کے حصول کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اردو اور انگریزی کی اہمیت سے قطعی انکار نہیں ہے۔ مگر بچّوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے ذریعہ تعلیم بچّوں کی مادری زبان ہی ہونا چاہئے۔ اور یہی ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ جس کے حل کی شدید ضرورت ہے۔

معاشرے کا ایک ذمّہ دار فرد ہونے کی حیثیت سے ہمارے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ بجائے اردو کے قومی زبان ہونے پر اظہارِ افسوس کرنے کے ، ہمیں اپنے بچّوں کے لئے مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی اور قومی و بین اقوامی زبان اردو اور انگریزی  کو سیکھنے پر توجّہ مرکوز کرنی چاہئے۔    دنیا اکیسویں صدی میں داخل ہوچکی ہے۔   دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بنتی جارہی ہے۔ قومی تعمیر نو کے لئے ، خواندگی بڑھانے، تعلیم یافتہ ، ہنرمند افرادی قوّت پیدا کرنے کے لئے ہمیں مادری زبان میں تعلیم ، قومی اور بین الاقوامی رابطے قائم کرنے کے لئے  اردو اور انگریزی کی سخت ترین ضرورت ہے۔  

پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو، بلوچی اور دیگر زبانوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ مگر قومی سطح پر    ابلاغ  عامّہ کے لئے اردو کی اہمیت نہ ہوتی تو  اردو سے متنفّر اور شاکی دانشور بھی اپنی کتابیں اپنی مادری زبانوں میں تحریر کرکے چھپوا رہے ہوتے۔  مگر  بقول غالب

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

تخلیق علم دانشوروں  اور اہلِ علم کا کام ہے، اردو کا  ماتم کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ یہ دانشورانِ قوم جو اردو پر لعنت و ملامت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اب جو بھی علم تخلیق کریں اپنی مادری زبان میں تخلیق کریں،  انہیں روکا کِس نے ہے؟

فراز نے ان ہی کے لئے کہا تھا کہ

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے


5 Comments