کیاعامیانہ ڈگر سے ہٹ کر زندگی گزارنا ممکن ہے؟

سبط حسن

کیا ایک فرد اجتماعیت میں بسی ایک اکائی ہے؟ یعنی یہ کہ اس کا انفرادی وجود بے معنی ہے اور دراصل وہ اجتماعیت کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ایک اوزار یا آلہ سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ بات تاریخی شہادت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افراد کو اجتماعیت کی قربان گاہ پر ذبح کر دیا گیا۔

کبھی اجتماعیت نے شہنشاہیت سے وفاداری اور کبھی صارفانہ ترغیب کی اسیری کی شکل میں اپنی من مانیاں کیں تو کبھی نظریے یا کلچر کے نام پر لوگوں پر اپنا حق جتایا۔ معمولاتِ زندگی میں اگر کوئی فرد اپنی انفرادیت کواپنی کسی خواہش کے وسیلے سے واشگاف کرنے کی کوشش کرے تواس کو عجیب اور نا پسندیدہ قرار دے دیا جاتا ہے۔

اس کی اس خواہش کی پرکھ اسی اجتماعیت کی سان پر کی جائے گی۔ اگر اس خواہش سے اجتماعیت کو بلاواسطہ یا باالواسطہ ، اشارتاََ بھی گزند پہنچنے کا اشارہ مل جائے تو خواہش مند کو پاگل، غدار یا اس سے ملتے جلتے خانوں میں پھینک دیا جائے گا۔

با خبر اور انسانوں سے پیار کرنے والے چند لوگوں نے اجتماعیت کے جبر اور انفرادی آزادی کے درمیان توازن قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ تاریخی تجربات کی شہادت کے مطابق اجتماعیت نے ظالمانہ شہنشاہیت، نازی ظلم، ریاستی جبر اور صارفانہ غیر معقولیت کی صورتوں میں افراد کو خام مال کی طرح استعمال کیا اور کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعیت کی بنیاد افراد پر تو ہے مگر یہ انسانوں کی بھلائی کے لیے ہر گز نہیں۔

اجتماعیت ایک تجرید ہے اور اس تجرید کی قربان گاہ پر جیتے جاگتے انسان ذبح کیے جاتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اجتماعیت کی ترکیب دراصل انسانوں کو ذبح کرنے کے لیے ہی بنائی گئی ہے اوراس تجرید کے پیچھے مفاد پرستوں کی کمین گاہ ہے؟

ڈنمارک کے ایک باخبر فلم ڈائریکٹر کی ایک فلم Melancholia اجتماعیت پر شاندار تنقید کا درجہ رکھتی ہے۔ اس فلم میں مرکزی کردار ایک لڑکی کا ہے۔ اس کی شادی ایک گولف کلب میں نہایت امیرانہ شان سے ہو رہی ہے۔شادی کی تقریب کے دوران لڑکی کارویہ اس طرح کا نہیں جیسے کہ ایک دلہن کا ہونا چاہیے۔ وہ اس تقریب میں موجود تو ہے مگر اس پر اس تقریب کا کو ئی اثر نہیں ۔ وہ اپنا عروسی لباس اس طرح اوڑھے پھر رہی ہے جیسے کہ وہ اس لباس کو سرے سے غیر ضروری اور غیر پسندیدہ سمجھتی ہو۔ 

سماجی نقطہ ء نظر سے دلہن کا وقار اس کے لباس اور اس کے چلنے ، اٹھنے بیٹھنے اور دلہن کے لیے طے شدہ اسلوب کی کا ر گزاری سے ہی بنتا ہے۔ اس لڑکی کا یہ عالم ہے کہ وہ ضیافت کے ہال سے نکل کر باہر کھلے میں چلی جاتی ہے۔ وہاں اس کا لباس کسی چیز میں اٹک جاتا ہے تو وہ بڑے روکھے انداز میں اسے کھینچ لیتی ہے اور یہ لباس دامن سے پھٹ جاتا ہے۔ اس کے بھانجے کو نیند آجاتی ہے تو وہ اسے سلانے کے لیے اوپر چلی جاتی ہے۔ اس کا بھانجا اس سے فر مائش کرتا ہے کہ وہ اس کو ایک جادوئی غار بنا کر دے ۔وہ اس سے وعدہ کرتی ہے اور بھانجے کو سلاتے ہوئے وہ خود سو جاتی ہے۔ 
ڈائریکٹر نے لڑکی کے کردار کی تصویر کشی ایک ایسے فرد جیسی کی ہے جو لوگوں کی عامیانہ روش سے ہٹ کر ہے۔ جس کمپنی میں وہ لڑکی کام کرتی ہے ، تقریب میں اس کمپنی کا اعلیٰ افسر بھی ہوتا ہے۔ وہ اس لڑکی کی ایک نئے بھرتی ہونے والے لڑکے کے سامنے تعریف کرتا ہے۔ لڑکا اس سے اچھی نوکری کا راز جاننے کی فرمائش کرتا ہے تو وہ اس کو جھاڑ دیتی ہے۔

اسی دوران اس کا دولہا اسے اوپر ایک کمرے میں لے جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہم بستری کی کوشش کرتا ہے ۔ لڑکی اسے جھٹک دیتی ہے اور نیچے آ کراسی نئے بھرتی ہونے والے لڑکے کے ساتھ مباشرت کرتی ہے اور وہ بھی کھلے میں۔ اس کا باس اس پر اپنا حق جتانے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اسے سخت قسم کی جھاڑ پلا دیتی ہے۔ تقریب میں عامیانہ پن کی حدود کو چھونے والی صورتحال کو پیش کیا گیا ہے۔ ڈائریکڑ نے اس لڑکی کے کر دار کو سنوارتے ہوئے ایسے اشارے دیے ہیں کہ جیسے وہ ڈپریشن کی مریضہ ہو۔

فلم کے پس منظر میں ایک اور کہانی چل رہی ہے اور وہ یہ کہ ایک سیارہ زمین کے قریب سے گزرنے والا ہے۔ لڑکی کا بہنوئی ایک سائنس دان ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ زمین کے قریب سے گزرنے والا سیارہ زمین سے نہیں ٹکرائے گا۔ ایک دن وہ سائنس دان اصطبل میں مرا ہوا ملتا ہے۔ لڑکی کی بہن سمجھ جاتی ہے کہ اس کے خاوند نے جھوٹ بولا ہے اور سیارہ لازماً زمین سے ٹکرائے گا۔ وہ سخت گھبرا جاتی ہے اور اپنے بچے کو لے کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتی ہے۔

اسی دوران وہی لڑکی مکمل طور پر پر سکون رہتی ہے اور جب اس کا بھانجا اور بہن لوٹ کر آتے ہیں تو وہ بھانجے کی مدد سے لمبی چھڑیاں ڈھونڈ کر لاتی ہے اور ان کو اپس میں جوڑ کر ایک علامتی غار سی بنا لیتی ہے۔ تینوں اس میں بیٹھ جاتے ہیں اور جب سیارہ زمین سے ٹکراتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس زلزلے کے سپرد کر دیتے ہیں ۔

Comments are closed.