پاکستانی جمہوریت کے لرزاں ستون

منیر سامی

جمہوریت ، سیاست، اور عمرانیات کے ماہر، اور طالب علم اس امر پر متفق ہیں کہ مہذب جمہوری ریاستیں جمہوریت کے تین بنیادی ستونوں پر قائم ہوتی ہیں جو، مقننہؔ، عدلیہؔ ، اور انتظامیہ ؔ ہوتے ہیں۔ ان ریاستوں میں ان ستونوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے اور شہریوں کو ’اکثریت کے ظلم ‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں جو اصول اپنائے جاتے ہیں ان میں عدلیہ، مقننہ، اور انتظامیہ کی متعین حدود اور دیوانی مقننہ عام ہیں۔مہذب جمہوری ریاستوں میں اکثریت کے ظلم سے حفاظت کے بارے میں فرانسیسی دانشور الیکسی ٹوکویلؔ Alexis Tocquville کی اہم کتاب Democracy in America کے اہم باب Tyrrany of Majority کا مطالعہ اہم ہے۔

جمہوری روایتوں کی نشو و نما کے دوران ’آزاد اور دیانت دار صحافت ‘ کو جمہوریت کا چوتھا، گو غیر رسمی ستون تسلیم کیا گیا ہے۔ دنیا کی مختلف جمہوری ریاستوں میں ’آزادی صحافت ‘ کو اہم آئینی تحفظات عطا کیے گئے ہیں۔ امریکی سیاست کے حوالے سے آپ نے بارہا ’پہلی ترمیم ‘ یا First Ammendment کا ذکر سنا ہو گا۔ اس ترمیم کے تحت ، مذہب، آزادیء اظہار، اور ٓازاد یء تقریر کو جو تحفظات عطا کیے گئے ہیں وہ اہم ترین ہیں۔ دنیا کی اکثر جمہوریتیں اپنے آئین کی ترتیب دیتے وقت جن اقدار کو نظر میں رکھتی ہیں، ان میں امریکی آئین، اور اظہار کی آزادی اہم ہیں۔

پاکستان بھی اپنے قیام سے ہی جمہوری اقدار کے قیام کے لیے کوشاں رہا ہے۔ لیکن یہ کوشش وہاں پر سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح تہہ و بالا ہوتی رہی ہے۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ سنہ47ؔ میں قائم ہونے والے پاکستان میں ایک تقریباً متفقہ آیئن سنہ 73 میں وجود میں آیا۔ اس وقت کہ جب ایک متفقہ آئین نہ ہونے کی وجہہ سے پاکستان ٹوٹ چکا تھا اور اس کا اکثریتی بازو آزاد ہو کر بنگلہ دیش بن چکا تھا۔

کہتے ہیں کہ ’خشتِ اول چون نہد معمار کج، تا ثریا می رود دیوار کج‘ یعنی کہ اگر پہلی ہی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی جائے تو ساری دیوار ہی ٹیڑھی اٹھتی ہے۔ سو ہمارے آئین کی تعمیر میں خرابی کی اتنی بنیادیں رکھ دی گئیں کہ ہماری جمہوریت اول روز ہی سے لرزاں ستونوں پر جھولتی رہی ہے۔ ان میں وہ شقیں بھی شامل ہیں جو آج صادق و امین والی شقوں کی صورت ہماری سیاست کی گردن کا پھندا ہیں۔ اسی طرح توہینِ مذہب و رسالت کے نام پر وہ شقیں ہیں جن کے ناجائز استعمال سے اقلیت تو اقلیت خود اکثریتی مسلک بھی محفوظ نہیں ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے آئین اور نظامِ ریاست پر روزِ اول ہی سے آئین اور انتظامیہ کے طابع ایک ایسے ادارے کا زور اور جبر رہا ہے جو خود کو ریاست کا ایک مساوی اہم ستون گردانتا رہا ہے۔ اس ادارے کی زد سے جمہوریت کا کوئی بھی بنیادی ستون محفوظ نہیں ہے۔ چاہے وہ مقننہ ہو، انتظامیہ ہو، عدلیہ ہو یا صحافت۔ سب جانتے ہیں چاہے سب نہ کہہ پاتے ہوں کہ یہ ادارہ ہمارا عسکری ادارہ ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان کے قیام سے اب تک اس عسکری ادارے نے جو آئین کی بنیادی شقوں سے کہیں دور آیئن کے دوسرے باب کی شق دو سو تینتالیس اور اس کے بعد کی شقوں کے طابع ہے، پاکستان پر براہِ راست فوجی آمریتوں کے تحت اور بالواسطہ حکو مت کی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ عسکری دباؤ کے تحت ہمارے ہاں ایک نیا بیانیہ ابھر کر آیا ہے جسے ’ اداروں کا توازن ‘ کہتے ہیں۔ آپ بارہا سنتے پڑھتے رہے ہوں گے کہ پاکستان میں اداروں میں توازن قائم ہونا ضروری ہے ، اور یہ کہ ’ادارے اپنی حدود میں کام کریں‘۔ اس بیانیے نے جمہوریت کے بنیادی اصول کو توڑ مروڑ دیا ہے ، جس میں جمہوری ستونوں کے اختیارات میں توازن کی بات ہوتی ہے، اورہم دنیا بھر میں مقننہ ، عدلیہ، اور انتظامیہ کے درمیان تناؤ کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔

اس بیانیہ کو کمالِ خوبی سے اس طرح بار بار دہرایا گیا ہے کہ اب پاکستانی شہریوں نے پاکستا ن کے عسکری ادارے کو پاکستان میں مقننہ ، انتظامیہ ، اور عدلیہ کے برابر اختیارات والا ادارہ تسلیم کر لیا ہے۔ اس بیانیے کے فروغ اور قبولیت کے ذمہ دار ہماری جمہوریت کے غیر رسمی اہم ستون اور ہمارے با اثر صحافتی ادارے، بالخصوص اردو صحافتی ادارے ہیں جن میں میڈیا کی سب شاخیں شامل ہیں۔

ہم سب کو یہ حقیقت بھی دیانت داری سے مان لینا چاہیئے کہ پاکستانی جمہوریت کے تینوں بنیادی ستون اور چوتھا غیر رسمی ستون پاکستان میں جمہوریت کی بقا کے لیئے اپنا کردار دیانت داری سے ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ سب کے پاس یہ بہانہ ہے کہ ہم پر عسکری ادارے کا دباؤ رہتا ہے اور ہمیں جان ، مال، اور عزت کے زیاں کا خطرہ رہتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جائز و ناجائز مراعت حاصل کرنے اور کبھی کبھار ہاتھ آئے اقتدار اور اختیار کو مستحکم کرنے کے لیئے جمہوریت کے اہم ستونوں کے محافظ خود ہی عسکری ادار ے کے ساتھ خفیہ و علانیہ گٹھ جوڑ کرنے میں شامل رہتے ہیں۔ غیر آیئنی اقدامات کے تحفظ کی ضمن میں ہماری عدلیہ کا کردار سب کے سامنے ہے۔ یہی کردار غیر اعلانیہ طور اب بھی کئی فیصلوں کے پس منظر میں سائے کی طرح تھرک رہا ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ عدلیہ عسکری ادارے کی غیر آئینی کاروایئوں کے خلاف کبھی کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتی۔ حد تو یہ ہے کہ عسکری ادارہ جسے بالکل غیر جانبدار ہونا چاہیئے، ببانگِ دہل اعلان کر رہا ہے کہ اگر اسے انتظامیہ یا سیاست دانوں کے خلاف عدلیہ کا ساتھ دینا پڑا تو وہ ایسا کرے گا۔ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے۔

ہم نے شروع میں لکھا تھا کہ جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ، تحریر، تقریر ، اور اظہار کی آزادی ہے۔ ان میں توہینِ عدالت کا خیال کرتے ہوئے عدالتی فیصلوں پر تبصرہ، کسی کی دانستہ ہتک سے بچتے ہوئے کوئی بیان بھی شامل ہے اور کسی بھی ملک کی افواج پر اس کی کمزوریوں اور بے راہ روی پر تنقید بھی شامل ہے۔ ہمارے ہاں اس آزادی پر خود آئین میں شامل ٹیڑھی بنیاد کے طور پر طرح طرح کی قدغنیں عائید ہیں۔

اسی طرح عسکری اداروں پر تنقید کو مختلف بہانوں سے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ اس خرابی میں خود ہمارے سیاست دانوں اور مقننہ کے اراکین کا بھی قصور ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارا عسکری ادارہ اپنے علاقاتِ عامہ کے شعبہ کے ذریعہ حکومت ، انتظامیہ ، اور اہلِ سیاست پر تنقید اور تبصرہ کرنے میں آزاد ہے۔

کسی بھی جمہوری ملک میں اس ملک کی افواج کا یہ رویہ نہ صرف غیر قانونی بلکہ بغاوت کے مترادف گردانا جا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ روش نہ صرف قبول کر لی گئی ہے بلکہ عسکری ادارے کو متوازی عدالتی اختیار بھی خود اہلِ سیاست ہی نے عطا کیئ ہیں۔

اگر ہمارے ملک میں یہی صورتِ حال برقرار رہی تو یہ ہماری بقا کے لیئے خوش آئیند نہیں ہے۔ یہ بگاڑ جب ہی دور ہو سکتا ہے کہ جب ہمارے اربابِ سیاست جمہوری طور پر میسر آئنیی اختیارات کو استعمال کریں اور جمہوریت کے بقا کے نام پر متحد ہو کر بہتری کی کوشش کریں، ورنہ آیئن اور جمہوریت کاجھوٹا راگ الاپنا ترک کردیں۔

Comments are closed.