عمران خان کی ریاستِ مدینہ اور سیالکوٹ حملہ کیس

اصغر علی بھٹی مغربی افریقہ

ابھی دو دن قبل پاکستان کے متوقع وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب اپنی ممکنہ حکومت کے پہلے سو دن کےپلان کااعلان کرتے ہوئے اُسے ریاست مدینہ کے ماڈل پر استوار کرنے کی بات کر رہے تھے ۔ اور فرما رہےتھے کہ ریاست مدینہ کیا تھی وہ پہلی فلاحی ریاست تھی جس میں قانون کی نظرمیں سب برابر تھے ۔جس میں قانون طاقت ور کے لئے الگ اور کمزور کے لئے الگ نہ تھا ۔ جس میں فرات کے کنارے ایک کتا بھوکا مرجانے پر حضرت عمرؓاپنے آپ کو قصور وار بتاتے تھے۔

ریاست مدینہ کے حوالے سےآپ کی بات تو سو فیصد درست ہےکہ وہ ریاست یقیناً ایک آئیڈیل اورفلاحی ریاست تھی۔اگر اس ریاست میں ہم حضرت محمدصلعم کو مقام نبوت سے ہٹ کر ایک سربراہ ریاست مملکت کے طور پر بھی دیکھیں تو بھی فلاح کے تمام پیمانے اپنی اکمل ترین صورت میں پریکٹیکل صورت میں نظر آتے ہیں۔ اور عمران خان صاحب آپ کی یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ اس فلاحی ریاست کی اساس تھی قانون کی حکمرانی اور ظلم کے خلاف جہاد۔

لیکن ان تمام خوبصورت باتوں اور آپ کی رومانوی شخصیت اور مستقبل کے سہانے پاکستان کے سپنوں کے ساتھ کیا کریں جب آپ کیٹیم کےسیالکوٹی ممبر جناب حافظ حامد رضا صاحب کے کل کی ’’ فتوحات ‘‘ کے بعد کے خطبہ مبارکہ کو سنتے ہیں اوراس واقعہ کو گزرے 12 گھنٹے سے زائد ہو گئے ہیں مگرآپ کی طرف سے بھی اس پر کسی قسم کےرد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔

جناب عمران خان صاحب یا تو آپ ریاست مدینہ اور نبی پاک جیسی طرزحکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیں یا مولوی حافظ حامد رضا صاحب جیسےممبران کے شنیع اعمال سے برآت کا اظہار کریں جو ایک ہجوم لے کر طاقت کے زعم میں کسی بھی اقلیت کی عبادت گاہ پر حملہ کر دیں کہ اس عبادت گاہ کی یہ چیز مجھے ناپسند ہے اس لئے میں اپنے جتھے کے ساتھ اسے مسمار کرتا ہوں۔

ریاست مدینہ تو دور کی بات یہ تو ایک عام فہم سی بات ہے کہ ریاست میں کوئی مسلم ہو یا کافر۔ کوئی اکثریت میں ہو یا اقلیت میں ، سب کی جان و  مال اور عزت کی حفاظت کرنا ریاست کی اول ذمہ داری ہے۔

ظلم صرف یہ نہیں ہےکہ حافظ حامد رضا صاحب سینکڑوں لوگوں کا مجمع لے کر جماعت احمدیہ کی 100سال سے پرانی مسجد پر حملہ آور ہو گئے۔ عبادت گاہ کے تقدس کو پامال کیا۔، ہتھوڑوں سے میناروں کو چکنا چور کیا، قرآن مجید کے نسخوں کو نکال کرپھاڑ دیا،محراب میں کھڑے ہو کر پیشاب کیا،جو ہاتھ میں آیا تہس نہس کردیا ، دیواریں گر ا دیں اور گالیوں سے فضا کو پراگندہ کیا ۔

ظلم صرف یہ بھی نہیں ہے کہ یہ سب افعال اسلام کے نام پر اسلام کی سر بلندی کے لئے کئے۔ اور ظلم صرف یہی بھی نہیں ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں اللہ کےمقدس الفاظ پر ہتھوڑے چلائے اور اُسے زمین بوس کیا ،ظلم ِ عظیم یہ ہے کہ یہ سب قانون شکنی قانون کے رکھوالوں کی مدد اور نگرانی اور زیر سرپرستی ہوا۔

پی ٹی آئی کے سیالکوٹ کے راہنما جناب حافظ حامد رضا صاحب جن کی زیر سرپرستی یہ کریہہ واقعہ ہوا اُنہوں نے یہ’’ سیالکوٹی پانی پت‘‘ فتح کرنے بعد وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ہو کر صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’میں تمام غیور مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔آج ہم انتظامیہ کے بھی شکر گزار ہیں اوراہل سنت کی جتنی تنظیموں نےاس کار خیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا ہم سب کے مشکور ہیں۔الحمدللہ نعرہ تکبیر اسلام زندہ باد۔

سیالکوٹ کی انتظامیہ اور خاص طور پر ڈی پی اوصاحب ڈی سی اوصاحب اور ٹی ایم اے کے عملے کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔۔میں انتطامیہ کا پھر سے شکریہ ادا کررہا ہوں ۔ ڈی پی او صاحب آپ نے بہت بڑا عظیم کام کیا ہے ڈی سی اوصاحب آپ نے بہت بڑا عظیم کام کیا ہے اور اس علاقے کےچئیرمین جناب مجاہد صاحب آپ کو اور آپ کی پوری ٹیم کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور یہ مینار میں نے خود گرائے ہیں ۔ میرے اگر کسی کارکن پرکسی نے مقدمہ قائم کیا تو ہم اس پورےشہر کو بند کر دیں گے‘‘۔

ایک بار پھر سے نعرہ تکبیر اسلام زندہ باد

عمران خان صاحب اور’’ نومولود فاتح‘‘ صاحب اگر سماعت پر بوجھ نہ ہو تومیں آپ کو ریاست مدینہ کاایک واقعہ سنانے کی جسارت کروں۔غزوہ خندق کے بعدریاست مدینہ اور ریاست مکہ کے دوران ایک معاہدہ ہوگیا جس کی رو اگر کوئی مسلمان مکے سے بھاگ کر مدینہ آجائے گا تو مسلمان اُسے واپس کر دیں گے لیکن اگر کوئی مدینے سے مکہ چلا جائے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

شرط گو سخت تھی نا انصافی تھی مگر سرکار دو عالم نےاسے عظیم اور دور رس مقصد کے لئے قبول کر لیا ۔ چنانچہ کچھ ہی عرصے بعد مکہ سے ایک مسلمان حضرت ابو بصیر ؓ مکی ظلم ستم کے چنگل سے کسی طرح نکل بھاگے اور مدینہ پہنچ گئے ۔تھوڑے دنوں بعد پیچھے پیچھے مکے والوں کا دورکنی وفد بھی آپ کو لینے کے لئے آگیا۔ زخمی حضرت ابو بصیر جن کی واپسی یقیناً ظلم وستم کی انتہا میں بدلنے والی تھی لیکن سرکار دو عالم جو قانون کے پاسدار اور مدنی ریاست کے سربراہ تھے اُنہوں نے حضرت ابو بصیرکو واپس کردیا ۔

احادیث کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ  اُس وقت مدینے کی سوگواریت کی کیاحالت تھی ۔ حضرت ابو بصیر رحمت دو عالم سے بلک بلک کر فریاد کناں تھے اور واپسی روکنے کے لئے آہ و فگاں کر رہے تھے۔ مگر رحمت دو عالم سرکار مدینہ کوہ وقار کوہ گراں بنے قانون کی حکمرانی، اوروعدوں کی وفا کا اعلان کرتے ہوئے حضرت ابو بصیرکو مشرکین مکہ کے حوالے کر دیتے ہیں۔

پھر یہی نہیں مزید بتا دیا کہ ریاست مدینہ دنیا کی پہلی فلاحی ریاست کیسے بنی اور اگر کسی نے اس ماڈل کو فالو کرنا ہے تو ہمت بھی اور جرات بھی ایسی ہی ہونی چاہئے ۔ حضرت ابوبصیر مدینہ سے نکلنے کے بعد کچھ ہی دور گئے تھے کہ اُنہوں نے اُن دومشرکوں میں سے ایک کو مار گرایا اور دوسرا بھاگ گیا۔ چنانچہ آپ پھرمدینہ لوٹ آئے۔

جب نبی پاک کو ان کے لوٹ آنے کی خبر ہوئی تو آپ نےخوشی کا اظہار نہیں فرمایا بلکہ ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا جس پر حضرت ابو بصیر مدینہ چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے۔ تو سرکار یہ ہےقانون کی حکمرانی اور ریاست مدینہ ۔ اب اس ماڈل پر اپنے غیور حافظ صاحب کو پر کھیںاور پھر اپنی خاموشی کو بھی پر کھیں کیا پھر بھی آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ریاست مدینہ کی نیابت کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟۔

یقیناً اس منافقت کے ساتھ آپ ایک اچھے سیاستدان تو ہو سکتے ہیں مگر کمزوروں اور اقلیتوں کے محافظ، حق بات کہنے والے،قانون کے محافظ اور مذہبی بلیک میلنگ میں نہ آنے والے ریاست مدینہ کےحکمران نہیں۔ فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ کھڑے ہونا پسندکریں گے ؟؟؟

2 Comments