ماضی کے جنگی مجرم بن گئے ناصح

آصف جیلانی 

امریکا ، برطانیہ اور فرانس ، جو گذشتہ سات سال سے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے باغی جہادیوں کو بڑے پیمانہ پر فوجی اور مالی امداد فراہم کر رہے ہیں ، آج شام کی حکومت پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ شاید دنیا کو یاد ہو کہ ۱۹صدی میں فرانس کے جنرل بیگویاڈ نے تاریخ میں پہلی بار الجزایر میں فرانسسی تسلط کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے خلاف کیمیائی گیس اسفیاشن استعمال کی تھی۔ فرانسسی جرنیل نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ فرانس کے خلاف لڑنے والے الجزائیریوں کو جنہوں نے غاروں میں پناہ لی ہے کیمیائی گیس چھوڑ کر انہیں ’’ لومڑیوں ‘‘ کی طرح نکالا جائے۔ 

اس کے ستر سال بعد ۱۹۱۷میں برطانوی جرنیل ایڈمنڈ ایلنبی نے غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیا تھا اور اسفیسیاٹینگ گیس کے دس ہزار پیپے استعمال کئے تھے۔ 
پھر ۱۹۲۰ میں میسو پوٹیما (عراق) میں برطانوی مینڈیٹ کے خلاف عراقیوں کی بغاوت کچلنے کے لئے اس زمانہ کے برطانوی وزیر خارجہ سر ونسٹن چرچل نے بقول ان کے ’’ غیر مہذب قبایل ‘‘ کے خلاف زہریلی گیس استعمال کرنے کی سفارش کی تھی۔ 

اور پھر ایک صدی بعد امریکا ، برطانیہ اور فرانس نے عراق اور ایران کے درمیان جنگ میں صدام حسین کوایران کے خلاف بڑی مقدار میں زہریلی گیس فراہم کی تھی۔

ماضی کے یہ جنگی مجرم آج اپنے سیاسی مقاصد کے لئے دوسروں پر کیمیائی اسلحہ استعمال کرنے کا الزام عاید کر رہے ہیں۔ امریکا ، برطانیہ اور فرانس نے بشار الاسد کی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے ۷ اپریل کو باغیوں پر زہریلی گیس کا حملہ کیا تھا ۔ ابھی اس مبینہ حملہ کی تصدیق بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان تینوں ملکوں نے مشترکہ کاروائی کر کے شام کے کیمیائی اسلحہ کے مراکز پر میزائل کے حملے کئے ۔ 
مغربی طاقتیں دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ بشار الاسد کے کیمیائی گیس کے حملے زیادہ مہلک ہیں جب کہ خانہ جنگی میں زہریلی گیس کے حملوں کے مقابلہ میں نوے فی صد ہلاکتیں امریکا اور برطانیہ کی طرف سے جہادیوں کو فراہم کردہ روایتی اسلحہ سے ہوئی ہیں۔ 

کیسا ظلم ہے کہ شام کی خانہ جنگی دوسری عالم گیر جنگ سے بھی زیادہ طول کھینچ گئی ہے جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں ننھے بچوں کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ ہے۔ آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد اس جنگ میں بے گھر ہو چکے ہیں اور یورپ میں پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔

One Comment