ایران کا جوہری پروگرام کس کے لیے ہے؟

ایرانی سپریم رہنما نے امریکا کے ایران کے ساتھ عالمی جوہری ڈیل سے الگ ہو جانے کو ’ایک غلطی‘ قرار دیا ہے۔ ادھر محافظینِ انقلابِ ایران کے سربراہ نے کہا ہے کہ اس ڈیل پر عمل پیرا رہنے کے حوالے سے یورپ پر شک کیا جا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نے بدھ کے روز ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے حوالے سے بتایا کہ امریکا کی طرف سے عالمی جوہری ڈیل سے دستبرداری کا فیصلہ اس کی ’ایک غلطی‘ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ٹرمپ نے ایرانی عوام اور حکومت کو دھمکایا ہے، جو ان کی ایک غلطی ہے‘‘۔

خامنہ ای نے عالمی وقت کے مطابق منگل کی رات کی گئی ٹرمپ کی تقریر کو ’بے وقوفانہ اور سطحی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی اس تقریر میں غالباﹰ کم از کم دس جھوٹ بولے۔ خامنہ ای کے بقول اگر یورپی ممالک کی طرف سے ٹھوس ضمانت نہیں دی جاتی تو ایران بھی اس ڈیل پر عمل پیرا نہیں رہے گا۔

امریکا کی طرف سے اس جوہری ڈیل سے الگ ہونے کے باوجود یورپی ممالک نے کہا ہے کہ وہ اس ڈیل پر کاربند رہیں گے۔ بدھ کے دن ہی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کی ڈٰیل فعال ہے۔

تاہم ایران کے ریوولیوشنری گارڈز(محافظینِ انقلابِ ایران) کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے دستبرداری کے بعد یورپی ممالک کے ایران اور عالمی طاقتوں کی ڈیل پر عمل پیرا رہنے کے حوالے سے شکوک موجود ہیں، کیونکہ یورپی ممالک اور امریکا دراصل ایک دوسرے کے قریبی اتحادی ہیں۔ منگل کے دن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی اس ڈیل سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے واشنگٹن حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھائے، جس کے باعث دوسرے ایسے ممالک کے لیے مشکلات پیدا ہوں، جو اس عالمی جوہری ڈیل پر عمل پیرا رہنا چاہتے ہیں۔ تاہم ٹرمپ کے مطابق یہ ڈیل امریکا کے مفاد میں نہیں ہے اور اس لیے اس پر مزید عمل درآمد جاری نہیں رکھا جا سکتا۔

اگرچہ یورپی ممالک نے اس پیشرفت کے بعد بھی کہا ہے کہ وہ اس جوہری معاہدے پر عمل پیرا رہیں گے تاہم جنرل محمد علی جعفری کے مطابق یورپی ممالک اس تناظر میں اکیلے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے ہیں۔

فارس نیوز ایجنسی نے محافظینِ انقلابِ ایران کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری کا حوالہ دیتے ہوئے بدھ کو لکھا، ’’یہ واضح ہے کہ ایران اور امریکا میں سے کسی ایک کو چننے کے حوالے سے یورپی ممالک غیرجانبدارانہ فیصلہ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تو امریکا سے بندھے ہوئے ہیں‘‘۔

اس عالمی جوہری ڈیل کے تحت ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کر چکا ہے، جس کے جواب میں تہران پر عائد عالمی پابندیوں کو نرم یا ختم بھی کیا جا چکا ہے۔ تاہم اب امریکا کے اس ڈیل سے الگ ہونے کے بعد واشنگٹن حکومت ایران کے خلاف اپنی معطل شدہ پابندیاں بحال کر چکی ہے۔

دوسری طرف پیرس میں فرانسیسی حکومت نے بدھ ہی کے دن بتایا کہ اس نئی صورتحال میں فرانس، برطانیہ اور جرمنی کے نمائندے آئندہ ہفتے ایرانی حکام سے ملاقات کریں گے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے ایک مقامی ریڈیو سے گفتگو میں کہا کہ پیر کے دن وہ جرمنی اور برطانیہ کے سفارتکاروں سے ملیں گے اور ساتھ ہی ایرانی حکومتی نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے۔

ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایک ’نفسیاتی جنگ‘ کر رہے ہیں اور اس تناطر میں ایران یورنیم کی افزدوگی کا عمل شروع کر دے گا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس سے قبل وہ اس ڈیل کے دیگر فریقین یعنی یورپی ممالک سے بھی مشاورت ضرور کریں گے۔

سوال یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے ایرانی عوام کو فائدہ ہے یا ایران کی مذہبی قیادت اسے بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتی ہے؟ اسلامی ملکوں ، جس میں پاکستان سرفہرست ہے، کا مسئلہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام کی ایک بڑی تعداد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہی ہے مگر ریاست ان کی حالت سنوارنے کی بجائے ہتھیاروں کا ڈھیر لگا رہی ہے۔

DW/News Desk

Comments are closed.