شامی جنگ کے ليے ایران، افغان ٹین ایجرز کی بھرتی میں ملوث

شامی خانہ جنگی کے ليے نوجوان افغان شہريوں اور مہاجرين کی بھرتی کا عمل نہ صرف ايران بلکہ افغانستان ميں بھی جاری ہے۔ اس عمل ميں ايرانی پاسداران انقلاب کو ملوث خیال کیا جاتا ہيں۔

شامی خانہ ميں اب بھی غير ملکی جنگجوؤں کی شموليت کا سلسلہ جاری ہے، جن کی اکثريت کی عمريں بيس برس سے بھی کم ہوتی ہيں۔ 2014ء ميں مہدی ايک بہتر زندگی کی اميد ليے کابل سے فرار ہو کر ايران چلا گيا تھا۔ اس وقت اس کی عمر بيس برس بھی نہ تھی۔ مہدی کو ايران ميں پاسداران انقلاب نے کہا کہ يا تو اسے شام جا کر لڑنا ہو گا يا پھر اسے افغان سرحد پر بھيج ديا جائے گا، جہاں اسے انہيں طالبان کا سامنا کرنا پڑتا جن کے شر سے وہ فرار ہو کر ايران گيا تھا۔ مہدی نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’ميں مرنے سے ڈرتا تھا اسی ليے ميں نے شام جانے کا فيصلہ کيا‘‘۔

مہدی کے بقول اس وقت وہ شامی خانہ جنگی کے بارے ميں کچھ نہيں جانتا تھا ليکن واپس افغانستان جانا اس کے ليے ممکن نہ تھا۔ اس نے مزيد بتايا کہ وہ ايک ايرانی فيکٹری ميں ملازمت کر رہا تھا کہ غير قانونی افغان تارکين وطن کو پکڑنے کی ايک کارروائی ميں وہ پوليس کے ہاتھ لگ گيا۔ مہدی کو شام جانے کے ليے ماہانہ سات سو ڈالر کے برابر رقم کی پيشکش کی گئی، جو اس کے ليے ناقابل فہم تھی۔

سن 2014 وہ دور تھا جب ايران شامی صدر بشار الاسد کے ليے اپنا تعاون بڑھا رہا تھا۔ مہدی جيسے نوجوانوں کی بھرتی اور ان کی شام ميں تعيناتی اسی سلسلے کا حصہ تھيں۔ اسے اپنے جيسے ديگر کئی افغان مہاجرين کے ساتھ رکھا گيا تھا۔ مہدی کا کہنا ہے کہ تقريباً سب ہی نے شام ميں لڑنے کا فيصلہ کيا۔ آج اس کا کہنا ہے کہ اس کا فيصلہ درست نہ تھا۔

مہدی ان دنوں سياسی پناہ کے ليے جرمنی ميں مقيم ہے۔ وہ ايک اور افغان مہاجر کے ہمراہ دارالحکومت برلن کے ايک مکان ميں رہائش پذير ہے۔ يہ نوجوان جنگ و موت کے بارے ميں ايسے بات کرتا ہے کہ جيسے اس نے اس کم عمری ميں ہی بہت کچھ ديکھ ليا ہے۔ مہدی کے مطابق جنگ کی تلخ ياديں خود سے دور رکھنے کے ليے وہ کبھی کبھار خود کو جسمانی اذیت دیتا ہے ليکن يہ بھی کبھی کبھی کارآمد ثابت نہيں ہوتا۔

ايران کے ساتھ لگنے والی افغان سرحد پر واقع صوبہ فراہ سے تعلق رکھنے والی ملکی پارليمان کی ايک رکن حميرا ايوبی کا کہنا ہے کہ شامی خانہ جنگی کے ليے ايران ميں افغان تارکين وطن کی بھرتی کا عمل عوامی سطح پر اور بلا خوف جاری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبليو کو مطلع کيا کہ افغانستان ميں اس بات سے کئی لوگ واقف ہيں ليکن اس بارے ميں بات کرنے کو کوئی تيار نہيں۔

ڈی ڈبليو نے پتہ چلايا ہے کہ شامی خانہ جنگی ميں شرکت کی غرض سے افغان شہريوں کی بھرتی خود افغانستان ميں بھی جاری ہے۔ ايک بريگيڈ کے سابقہ ارکان اور چند ايسے افغان شہريوں نے اس کی گواہی دی، جنہيں کابل کے نواح ميں بھرتيوں کے ايک دفتر ميں باقاعدہ پيشکش کی گئی۔ اس دفتر کا پتہ اکثر تبديل ہوتا رہتا ہے۔ ايوبی نے بتايا، ’’شام بھيجنے کے ليے اکثر غريب ہزارہ اور دوسرے شيعہ افراد کو ايران اور افغانستان ميں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ لڑنے کے بدلے ان افراد کو رقوم اور تحفظ کی يقين دہانی کرائی جاتی ہے۔

ہيومن رائٹس واچ کی جانب سے گزشتہ برس جاری کردہ ايک رپورٹ کے مطابق ايران کی ’فاطميوں ڈويژن‘ ميں چودہ برس کی عمر تک کے لڑکے شامل ہيں۔ بين الاقوامی قوانين کے مطابق پندرہ برس سے کم عمر کے افراد کی جنگ کے ليے بھرتی ايک جنگی جرم ہے۔

مہدی بھی اس وقت چودہ يا پندرہ برس ہی کا تھا، جب اسے بھرتی کيا گيا۔ اس کے بقول اس کی والدہ اس کی پيدائش کی فوری بعد ہی چل بسی تھيں اور والد، جو کہ نشے کا عادی تھا اسے بہت پہلے ہی چھوڑ گيا تھا۔ اسی ليے وہ اپنی حقيقی عمر سے واقف نہيں تاہم وہ يہ ضرور کہتا ہے کہ پاسداران انقلاب کو يہ ضرور پتہ تھا کہ جس وقت وہ اسے شام روانہ کر رہے تھے، اس وقت اس کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھی۔

مہدی کے بقول اسے پہلے ايک ماہ ايران ميں ہی تربيت فراہم کی گئی، جس کے بعد اسے دمشق روانہ کر ديا گيا۔ نو ماہ بعد وہ واپس ايران پہنچا، تو اسے قريب سات ہزار ڈالر کی برابر رقم ملی۔ انہی پيسوں کی مدد سے وہ ايک انسانی اسمگلر کی خدمات حاصل کر کے جرمنی پہنچا۔

DW

Comments are closed.