کشمیر بھارت کو اٹوٹ انگ ہے

بیرسٹر حمید باشانی

کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ جنگ زدہ اور تصادم کا شکار دوسرے علاقوں کی طرح یہاں کی تاریخ اور جہدو جہد آزادی کے بارے میں بھی کئی بیانیے موجود ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ان میں سے کوئی بیانیہ بھی ایسا نہیں ہے، جو جو اں سال فکر اور عصرحاضر کے تنقیدی ذہن کو پوری طرح مطمئن کرسکتاہو۔

کشمیر کے موجودہ حالات ایک دردناک ماضی کی پیداوار ہیں۔ چنانچہ ان حالات کو ماضی کے آئینے میں ہی درست طریقے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے آئینے کا صاف و شفاف ہونا بہت ضروری ہے۔ کشمیر میں کچھ محقق اور دانشور اس آئینے پر پڑا گرد و غبار صاف کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اور حقائق کو اپنی صحت کے ساتھ نوجوان نسل تک پہچانے کا فریضہ سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک ڈاکٹر نائلہ علی خان بھی ہیں۔

ان کی نئی کتاب ، کشمیر شیخ عبداللہ کی نظر میں ، اس سلسلے کی تازہ ترین کاوش ہے۔ کتاب میں کہنے سننے کے لیے بہت کچھ ہے، مگر آج صرف بات ہو گی شیخ محمد عبداٰللہ کے ایک اہم انٹرویو پر جو اس کتاب میں شامل ہے۔ یہ انٹرویو شیخ صاحب نے سن 1969میں نیو دہلی میں شبستان اردو ڈائجسٹ کو دیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے ، جب شیخ صاحب تین سالہ قید کاٹ کر رہا ہوئے تھے۔

ہندوستان میں شیخ صاحب کی قیدو بند کی صعبتوں اور جلاوطنی کے بارے میں ہمارے ہاں زیادہ نہیں لکھا گیا، اس حوالے سے نوجوان نسل گمراہ ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے قید پر تھوڑی سی بات ہو جائے۔ اتفاق سے شبستان اردو کے نمائندے نے بھی اپنا پہلا سوال قید پر ہی کیا ہے اور شیخ صاحب سے پو چھا کہ وہ تفصیل سے بتائیں کہ وہ کتنی دفعہ، کہاں، کب اور کتنی مدت کے لیے قید ہوئے۔ اور شیخ صاحب نے جواب میں جو تفصیل دی، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ستمبر1931 سے لیکر جنوری1968 تک ، شیخ صاحب تیرہ بار جیل کاٹ چکے تھے۔

جیل کاٹنے کا عرصہ چند ماہ سے لیکر پانچ چھ سال سالوں تک تھا، جن سب کو جمع کیا جائے تو شیخ عبداللہ کا شمار اس وقت دنیا کے طویل ترین سیاسی قیدیوں میں ہوتا ہے۔ یہ قید شیخ صاحب کو اس وقت بھی کاٹنی پڑی جب مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کا سربراہ اور انگریز وزیراعظم تھا، اور اس وقت بھی جب ریاست ہندوستان کے زیر انتظام جا چکی تھی اور ہندوستان کا وزیر اعظم پنڈت جواہر لانہرو جیسا جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کاعلمبردار تھا۔

میری تحقیق کے مطابق مرتے دم تک کل ملا کر شیخ صاحب کی قیدو بند کا عرصہ بائیس سال بنتا ہے۔ آج اگر ہم دنیا کے طویل ترین سیاسی قیدیوں کی فہرست بنائیں تو اس میں پہلے دس ناموں میں آنگ سانگ سوچی، لیو زیابو، نیلسن مینڈیلا، مارٹن لوتھر کنگ ، اندرے سخاروف اور ہوچہ منہ کی طرح کی نام آتے ہیں۔

درحقیقت دنیا کہ طویل ترین قیدی فلسطینی ہیں، مگر فلسطینی سیاسی قیدیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان پرسیاست کے ساتھ دہشت گردی یا تشدد کے الزامات بھی لگا دئیے جاتے ہیں ، جن کی وجہ سے دنیا انہیں سیاسی قیدیوں کی فہرست میں ڈالنے سے ہچکچاتی ہے۔ مگر شیخ صاحب کے ساتھ اس طرح کا معاملہ نہیں تھا۔ وہ عدم تشدد کے پرچارک نہیں تھے، لیکن انہوں نے کبھی تشدد یا دہشت گردی کی حمایت نہیں کی۔

اس فہرست میں شامل نہ ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے مد مقابل نہرو و گاندھی کا ہندوستان تھا، جن کو اس وقت دنیا جمہوریت ، انسانی حقوق اور آزادی کے پر چارک مانتی تھی۔ اپنی قید کے علاوہ اس انٹرویو میں شیخ صاحب نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ا نہوں نے اپنے ایک ساتھی جی ایم صادق کو مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں پاکستان کے دورے پر روانہ کیا۔

جی ایم صادق نے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ملاقات کی اور ان کو شیخ عبداللہ کا نقطہ نظر پیش کیا۔ لیاقت علی خان نے جی ایم صادق کو بتایا کہ ہندوستان مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوا ہے، اور چونکہ کشمیر میں مسلمانوں کی ا کثریت ہے ، اس لیے کشمیر پر پہلا حق پاکستان کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل کیا جائے، اس کے علاوہ کوئی حل بھی پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

جواب میں جی ایم صادق نے کہا بہتر ہو گا کہ کشمیریوں کو فیصلہ کرنے کے لیے کچھ وقت دیا جائے ، اور وہ جو بھی ٖ فیصلہ کریں اسے پاکستان اور بھارت دونوں تسلیم کریں۔ اس ملاقات میں لیاقت علی خان اور جی ایم صادق کسی بات پر متفق نہ ہو سکے اور جی ایم صادق واپس کشمیر آگئے۔ اس سے کچھ عرصہ بعد حملہ آور کشمیر میں داخل ہو گئے۔

ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم اور ایک حصے کے بھارت کے زیر انتظام چلے جانے کے بعد کی صورت حال کے بارے میں سوال کے جواب میں شیخ صاحب نے کہا کہ کشمیر کو بھارت کے زیر انتظام لاتے وقت ہمیں بتایا گیا تھا کہ بھارت کی طرف سے کشمیر کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ سردار پٹیل مختلف ریاستوں سے الحاق ہندوستان کی دستاویزات پر کامیابی سے دستخظ کروا رہا تھا، مگر وہ کشمیر کے ساتھ معاملات طے نہ کر سکا۔

کشمیر کے مسلمانوں کو خوف تھا کہ وہ ہندوستان کی وسعتوں میں گم ہو جائیں گے۔ میں نے اس وقت کے بڑے بڑے سیاسی مدبروں کو خبردار کیا تھاکہ بھارت کو کشمیر کے معاملے میں مداخلت نہیں کرنی چائیے اور معاملات کو آہستہ آہستہ آگے بڑھنے دیا جائے۔ انہوں نے میری تجویز کو نظر انداز کر دیا۔ اور پھربھارت نے اچانک اعلان کر دیا کہ الحاق ہندوستان کی دستاویز کے ذریعے، جس پر کشمیر کے حکمران نے دستخظ کیے ہیں، کشمیربھارت کا اٹوٹ انگ یا حصہ بن چکا ہے۔

انتہائی ہوشیاری سے عارضی الحاق کو مستقل الحاق میں بدل دیا گیا۔ مجھے اس پر بڑی پریشانی ہوئی، اور میں نے پنڈت نہرو، جو جمہوریت کے چمپین بنے ہوئے تھے کو بتایا کہ بھارت اپنے وعدے سے پھر چکا ہے۔ جواب میں نہرو نے کہا کہ اس وقت حالات بہت گڈمڈ اور پیچیدہ ہیں اس لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اس جواب نے مجھے گہری چوٹ لگائی، مگر میں نے حوصلہ نہیں ہارا۔ میں نے حالات کا مقابلہ کیا، خصوصا بھارت کی بدلتی ہوئی سوچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کا میں نے بڑے عزم و حوصلے سے مقابلہ کیا۔ اور یہ عزم اب بھی قائم ہے۔

اس انٹرویو میں شیخ صاحب نے اس افسوس کا اظہار کیا کہ کشمیر میں وعدوں کے باوجود رائے شماری نہیں کروائی گئی۔ یہاں کمزور لوگوں کو اقتدار دے دیا گیا اور انہیں اور ان کے دلیر ساتھیوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود اب تک کوئی ایک شخص بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ کشمیر حتمی طور پر بھارت میں شامل ہو گیا ہے۔

آج کشمیر کی تصویر بدل چکی ہے۔ یہ وہ کشمیر نہیں رہا ، جو1947 میں تھا۔ اب بھی یہاں کچھ مسلمان گاندھی اور نہرو زندہ باد کا نعرہ تو لگاتے ہیں، مگر بھارت پر ان کا بھروسہ ٹوٹ گیا ہے۔ انہوں نے بلوے، بد عنوانی اور غریب لوگوں کی لوٹ گھسوٹ اور امیر لوگوں کی عیاشیاں دیکھ لی ہیں، ۱ور ان چیزوں کا ان پر بہت اثر پڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلی خود شیخ محمد عبداللہ میں بھی آئی، جو بلاخر جا کر اندرا عبدللہ معاہدے پر منتج ہوئی۔

اس وقت تک شیخ صاحب بھارت کی طرف سے جیلیں کاٹنے کے علاوہ بغاوت اور غداری کے مقدمات اور پاکستان کا ایجنٹ ہونے کے الزامات بھگت چکے تھے۔ اندرا عبداللہ معاہدے کو پاکستان اور آزاد کشمیر میں اندرا عبداللہ گٹھ جوڑ قرار دیکر شیخ عبداللہ کو غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا گیا۔ شیخ صاحب کے بارے میں سرحد کی دونوں اطراف میں یہ دو بیانیے آج بھی اسی طرح موجود ہیں، اور ان پر بحث جاری ہے۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر سمجھتاہے کہ مسلمان ہوں

Comments are closed.