مہاجر اور احمدی اپنا ہی بویا ہوا کاٹ رہے ہیں

آصف جاوید

کہا وت ہے کہ تاریخ اپنا انتقام ضرور لیتی ہے اور تاریخ کا انتقام بہت بھیانک ہوتا ہے۔ میں نے یہ بات صرف کتابوں میں پڑھی تھی۔ مگر  پاکستان کی تاریخ میں اس اصول کے اطلاق  کو مہاجروں اور احمدیوں کے مسائل اور مصائب کی شکل میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔

   سنہ 1971 ء تک پاکستانی قوم بنگالیوں کے ساتھ نبرد آزما  رہی۔  سقوطِ بنگال کی شکل میں بنگالیوں سے نبٹنے کے بعد  پاکستانی قوم نے  1972 میں مہاجروں اور  اور 1974 میں احمدیوں کو بھی  ٹیکنیکل بنیادوں پر ناک آؤٹ  کردیا، ایک طبقے کو کوٹہ سسٹم کی تلوار سے کاٹ کر مساوی شہری حقوق سے محروم کردیا گیا، اور دوسرے طبقے کو کافر قرار دیدیا گیا،  اور یوں تاریخ  نے اپنا انتقام پورا کرلیا۔

 انڈس سوِل آئزیشن کی پانچ ہزار سال کی معلوم تاریخ ہے ۔ آریا ، ہڑپّہ ، موہنجو داڑو اس ہی تہذیب کی نشانیاں ہیں ۔  یہ عظیم تر ہندوستان کی قدیم ترین تہذیبیں  ہیں۔ انڈس سولائزیشن کا دائرہ کار پورے برِّ صغیر پر پھیلا ہوا ہے۔  اور اس کی سرحدیں مشرق سے مغرب، اتّر پردیش سے لے کر ایرانی بلوچستان تک پھیلی ہیں۔

 ستلج، راوی، بیاس، چناب، جہلم، اور دریائے سندھ سمیت سارے دریاؤں  کا منبع بھی ہمالیہ کی چوٹیاں ہیں اور دریائے گنگا اور جمنا بھی ہمالیہ سے ہی نکلتے ہیں۔   برّصغیر ہندوستان میں پائے جانے والے مذاہب ایک ہی تہذیب کے نمائندہ گروہوں کے مذاہب ہیں۔ ان میں بدھ مت اور ہندو ازم، بہت قدیم مذاہب ہیں،  اسلام کی تو عمر ہی صرف چودہ سو سال ہے۔ اسلام برّصغیر میں  کبھی بھی غالب مذہب نہیں رہا ہے۔

 صرف بدھ مت  اور ہندومت، اس خطّے کے غالب مذاہب تھے۔ اسلام تو برِّ صغیر میں عرب تاجروں کے ذریعے  ہزار سال قبل آیا تھا،  یہ عرب تاجرجنوبی ہند اور مالابار کے  ساحلی علاقوں میں  تجارتی سازوسامان کے ساتھ آیا کرتے تھے، اور مقامی عورتوں سے شادیاں کر کے  وہیں گاؤں بسا لیا کرتے تھے۔

مرکزی  ہندوستان میں اسلام شمال کی جانب سے آنے والے حملہ آوروں کے حملوں اور قبضوں  کی وجہ سے آیا، شمالی ہند کے راستے ترک ایرانی، عرب اور افغان فوجی مختلف افواج کے ساتھ حملہ آور ہوتے رہے، اور ان آمد و رفت اور قیام کے نتیجے میں لوگ مسلمان ہونا شروع ہوگئے۔ مغل حکمران بھی ہندوستان میں پندرہویں صدی میں آئے تھے۔

 ہندوستان  کی تاریخ میں کبھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں ، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان جنگوں کا سبب، مذہب یا عقائد رہے ہوں۔  ہندوستان پر جتنے بھی حملہ آورآئے وہ لوٹ مار کرنے آئے، مذہب یا عقائد کی جنگ ہندوستان میں کبھی نہیں ہوئی۔

 برِّ صغیر ہندوستان  کا سماج ہمیشہ سے کثیر المذاہب اورکثیر الثقافت سماج  رہا ہے۔  تنوّع اس سماج کی پہچان اور خصوصیت رہی ہے۔ برِّ صغیر ہندوستان کے باشندے ہمیشہ امن ، چین و سکون کے ساتھ رہے ہیں۔ کبھی برِّ صغیر کے باشندوں نے دوسرے ممالک پر حملے نہیں کئے۔ جب بھی اس خطّے میں کوئی جنگ چھڑی تو وہ بیرونی حملہ آوروں کے حملوں کے نتیجے میں چھڑی۔

ہندو اور مسلمان اس خطّے میں سینکڑوں سالوں سے مذہبی رواداری  کے ساتھ رہِ رہے تھے۔ انگریز بھی ہندوستان میں  16 ویں صدی سےآنا شروع ہوئے ، اور سنہ ء 1857 میں مغل راج کا خاتمہ کرکے ہندوستان پر اپنے مکمّل تسلٗط کا آغاز کیا۔    دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر انگریز راج کا سورج غروب ہوگیا، کالونائزیشن کے خاتمے کا اعلان ہوا۔

انگریز ہندوستان سے واپس جارہے تھے، ایسے میں ہندوستان میں مذہب کا شوشہ چھوڑا گیا، اور مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کی بات کی گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندگی کے لئے کھڑا کیا گیا، اور مسلم لیگ کی طرف سے  دو قومی نظریہ پیش کیا گیا، اور یہ مطالبہ کیا گیا ہے۔ ہندو اور مسلمان ، دو الگ الگ قومیں ہیں،   اور یہ دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہِ سکتی، لہذا ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر کی جائے اور مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل پاکستان کا مطالبہ پیش کیا گیا۔

اس مطالبے کو پیش کرنے والوں میں پیش پیش، بنگال، یوپی اور سی پی کے مسلمان تھے، جب کہ پنجاب میں احمدی مسلمان(جو کہ اُس وقت قادیانی یا مرزائی فرقہ کہلاتے تھے) تقسیم ہندوستان کے ہراول دستے میں شامل تھے۔  بنگالیوں، یوپی کے مسلمانوں اور احمدیوں نے ہندوستان کی تقسیم کروا کر پاکستان تو حاصل کرلیا، مگر تاریخ نے ان تینوں طبقات  کو معاف نہیں کیا اور صرف 70 سال کے قلیل عرصے میں ان تینوں طبقات سے اپنا ابتقام لے لیا۔ 

پاکستان میں مہاجر اور احمدی، دونوں مکافاتِ عمل کا شکار ہیں۔ اگر یہ ہندوستان کی تقسیم کروا کر پاکستان نہ بنواتے تو آج ذلیل و خوار نہ ہوتے۔ مہاجر اور احمدی دونوں ہی اپنا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان میں ان دونوں طبقات کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے۔ ایک طبقے کو سندھ دیہی وشہری کوٹہ سسٹم کی آڑ میں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا ہے، دوسرا طبقہ کافر قرار دے دیا گیا۔

تاریخ مہاجروں اور احمدیوں سے اپنا انتقام لے رہی ہے۔ انہوں نے ہی قائدِ اعظم کو مشورہ دیا تھا کہ اگر رومال کے برابر بھی پاکستان ملے تو لے لینا۔ مگر مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن ضرور لینا۔ برِّ صغیر ہندوستان کو تقسیم کراکر مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن پاکستان بنانے کا کیڑا سب سے زیادہ ان مہاجروں اور احمدیوں کو کاٹا تھا۔ حالا نکہ غیرمنقسم ہندوستان میں یہ دونوں طبقات بہت بہتر، مطمئن اور آسودہ زندگی گزار رہے تھے۔

مگر ان عاقبت نا اندیش لوگوں نے خواہ مخواہ کا شوشہ چھوڑا اور قیام پاکستان کی تحریکیں چلائی، ہندوستان کا بٹوارہ کرایا، پاکستان بنوایا اور آج بند گلی میں پھنس گئے۔ قرار دادِ مقاصد بھی  پاکستان بننے کے بعد ان ہی منحوس لوگوں نے پاس کروائی تھی۔ قراردادِ مقاصد کو آئین کا دیباچہ بھی ان ہی لوگوں نے بنوایا تھا۔ یہ مہاجر اور احمدی آج اپنا بویا ہوا کاٹ رہے ہیں۔

مہاجروں اور احمدیوں کے لئے اس پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ وحشی جانوروں کا ملک ہے۔ یہاں جانور ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس ملک میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کئے جاتے ہیں۔ اکثریت کا مذہب ہی ریاست کا مذہب ہے۔ مہاجروں اور احمدیوں کو پاکستان میں کبھی بھی مساوی شہری حقوق حاصل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان میں انہیں کتّے کی زندگی گزارنی ہوگی۔ یہ تاریخ کا انتقام ہے، یہ تقدیر کا فیصلہ ہے۔

9 Comments