میاں صاحب کا بیانیہ نہیں واویلا

عظمیٰ ناصر

کیا میاں نواز شریف کا کوئی بیانیہ ہے یا محض ایک وا ویلہ ہے ،کیا میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا جھگڑا سکیورٹی ریاست اور فلاحی ریاست کی بنیاد پر ہے ،کیا یہ جھگڑا ملک و قوم کی ترقی اور سا لمیت کا جھگڑا ہے ،کیا یہ جھگڑا دفاعی بجٹ سے شروع ہوتا ہے ۔ میاں صاحب کے اس جھگڑے کا مقصد آزادانہ خارجہ پالیسی ہے ،کیا میاں صاحب آئین و قانون کی بالادستی کے خواہشمند ہیں ۔اور کیا دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ واقعی قانون کی بالادستی کیلئے میاں صاحب سے دست و گریباں ہے ۔

میری ناقص عقل کے مطابق ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے دونوں فریقین کا دست و گریباں ہونے کا مقصد کچھ اور ہے یہ حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ کٹھ پتلی گورنمنٹ چاہتی ہے انہوں نے اپنے کچھ نو گو ایریاز بنا رکھے ہیں اس میں مداخلت کرنے والا اپنے انجام کا ذمہ دار خود ہوتا ہے اس کی بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو ہیں انہوں نے ہمیشہ اداروں کے بالادستی کی بات کی اور ملک کے تمام اداروں کے بشمول فوج کو مضبوط کیا مگر جیسے ہی انہوں نے غیر ضروری مداخلت کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے جمہوریت کمزور ہونے کا اندیشہ تھا تو وہ سازش کا شکار ہو گئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کا ایجنڈا نہ تو اپنی کرپشن کا دفاع تھا اور نہ ہی اقتدار کی حرص،وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے خواہشمند تھے وہ اپنی خارجہ پالیسی ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر چلانا چاہ رہے تھے وہ ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن ماننے سے انکاری تھے اور یہی ان کا جرم تھا ۔پھر اس جرم کی مرتکب ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی ہوئیں اور انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیامگر میاں نواز شریف کا کیس بالکل مختلف ہے ان کے خود ساختہ بیانیہ کو ذاتی مفادات کیلئے کچھ صحافی حضرات اور کچھ لبرل پرموٹ کر رہے ہیں۔

نواز شریف نہ کبھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھے نہ ہوں گے ان کا جھگڑا ذاتی نوعیت کا ہے پانامہ اور اقامہ کے بعد میاں صاحب کے اند ر سے موسمی انقلابی نے جنم لیا ہے یہ وہی انقلابی ہے جس نے پرویز مشرف کے دور میں بھی سر ابھارا تھا اور پھر ایک ڈیل کر کے جدہ سدھار گئے تھے۔ میاں صاحب کا بیانیہ نظریہ ضرورت کے تحت ہے۔ نواز شریف کے کیس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ان کے ووٹ بنک میں بڑا حصہ ان لوگو ں کا بھی ہے جو انہیں ایماندار سیاستدان مانتے ہیں جس نے کبھی کرپشن نہیں کی نواز گورنمنٹ کک بیکس اور بڑے ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں ملکی خزانے کو لوٹنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

مگر کمال یہ ہے کہ وہ قتل کریں تو دامن پہ چھینٹا اور نہ خنجر پہ خون ۔اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ میڈیا مینجمنٹ میں میاں صاحبان اپنی مثال آپ ہیں پچھلی تین دہائیوں سے پنجاب کے اقتدار پر براجمان ہیں تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اس دوران بیوروکریسی کی ایک بڑی لاٹ بھی ان کے اپنے لاڈلوں کی ہے۔ حال ہی میں 36بوگس کمپنیوں کی کہانی بھی منظر عام پر آئی ہے مگر اس سارے کے باوجود پہلی دفعہ ان کے چہرے کی نقاب کشائی ہوئی ہے ۔

پانامہ کیس سامنے آنے کے بعد انہوں نے وا ویلہ مچانا شروع کر دیا مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میرے خلاف سازش کی جا رہی ہے وہ بڑے بڑے جلسے کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مجھے عوامی حمایت حاصل ہے اور مجھے سزا دینے کہ بعدملک میں انتشار پھیل جائے گا اور دوسری طرف میاں شہباز شریف کو پارٹی کی صدارت سونپ کر کچھ اداروں کو یہ خاموش پیغام بھی دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی مل بیٹھنے کا راستہ نکالو مگر اسٹیبلشمنٹ جو میاں صاحب کو 35سال سے ساتھ لے کر چل رہی تھی اب وہ میاں صاحب کو چانس دینے کو تیار نہیں ہے ۔ 

مجھے کیوں نکالا کے بعد ووٹ کو عزت دو کا ایک نعرہ میاں صاحب نے متعارف کروایا ہے کیا اس نعرے پر وہ خود بھی عمل پیرا ہیں وہ دوسری جماعتوں کو تو چھوڑیں اپنی ہی جماعت کے رہنماوں سے غلاموں جیسا برتاؤ کر تے ہیں ان کی نظر میں وہی ووٹ قابل احترام ہے جو ان کو ملے انہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر جمہوری حکومتوں کے خلاف سازشیں کیں۔اصغر خان کیس سے لے کر میمو گیٹ تک تمام واقعات ان کی اسٹیبلشمنٹ سے وفاداری کی گواہی دیتے ہیں۔

حالیہ لڑائی کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ سزا ہوجانے کی صورت میں وہ خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنا چاہتے ہیں جس کے لئے ضروری ہے کہ ان پر لگا کرپشن کا لیبل غداری کے لیبل میں بدل جائے اور وہ خود کو فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے کا لیڈر بنا لیں یا پھر کوئی معافی تلافی کی راہ نکل آئے ۔ 

One Comment