بچہ وہ نہیں سیکھتا جو لفظوں میں بتایا جائے

بچہ وہ نہیں سیکھتا جو اسے لفظوں میں بتایا جائے۔ بچہ وہ سیکھتا ہے جو اس کے سامنے کیا جائے یا جو اس کے ساتھ کیا جائے۔


سبط حسن

اعتماد کیا ہے؟ کسی بھی کام کے لیے ہر شخص پر انحصار نہیں کیا جاسکتا ۔ انحصار کرنے سے پہلے اس بات کا یقین کرلینا ضروری ہے کہ کسی شخص میں ایسا کام کرنے کی صلاحیت ہے یا نہیں ہے۔یعنی یہ کہ انحصار کا تعلق صلاحیت پر ہے۔ بچہ صرف اسی فرد پر انحصار کرتا ہے جو اس کے انحصار کرنے کے تقاضوں پر پورا اتر سکتا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص میں انحصار دینے کی قابلیت ہو۔ دوسروں پر انحصار یا اعتبار کرنا ایک سماجی رویہ ہے اور دیگر رویوں کی طرح بچہ ان کو بھی صلاحیت کے طور پر سیکھتا ہے۔

یہ صلاحیت فطری طور پر موجود نہیں ہوتی۔ یہ صلاحیت وہ صرف اسی صورت میں سیکھے گا جب اسے ایسے مواقع ملیں گے۔ اعتماد کا مطلب یہ ہے کہ بچہ جب کسی پر اعتماد کرتا ہے تو وہ اس فردکی موجودگی میں اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ سمجھتا ہے۔ یعنی یہ کہ بچہ سمجھتا ہے کہ جس شخص پر اعتبار کیا گیا ہے وہ اسے کسی بھی صورتحال میں تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ اس کے اعتماد کو جھٹلائے گا ۔ دوسروں پر اعتماد بچے کو سلامتی کا ایک احساس عطا کرتا ہے۔ اس احساس کے بعداس کا اپنے آپ پر انحصار بھی بڑھ جائے گا۔ اسے اپنے رّد ہو جانے کا خوف نہیں رہے گا۔ اسے اپنی مجموعی صورتحال کا بخوبی اندازہ رہتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے۔

یہ سب اس لیے ممکن ہے کیونکہ وہ جس شخص پر اعتبار کر رہا ہے وہ مستقل مزاج ہے اور وہ ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ اس طرح اعتبار کی پہلی منزل یہی ہے کہ ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کا موقع میسر آجائے۔اگر ایسا ہو جائے تو اس سے دیرپا اور اعتباری رشتوں کی شروعات ممکن ہو جاتی ہے۔ اعتبار کی ان نازک بھول بھلّیوں میں سے گزرتے ہوئے ہمارے بچپن کو ہر وقت ضررپہنچنے کا خدشہ رہتا ہے۔ اُس دور میں انحصار کرنے کا مطلب اپنے آپ کو دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا ہے۔

ہمارے کلچر میں بچے کی تربیت یہ مان کر کی جاتی ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا، اسے ہر وقت ’بڑوں‘ کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لیے جب بھی کسی بڑے کا سامنا بچے سے ہوتا ہے تو وہ فوراً اپنا بڑا پن ثابت کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ نفسیاتی اعتبار سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بڑے ہمیشہ اپنے خالی پن یا ادھورے پن کو ثابت کرنے کی ضرورت میں مبتلا رہتے ہیں اور جب بھی ان کا سامنا کسی بچے سے ہو جائے تو انھیں اپنے خالی پن کا احساس نسبتاً کم ہو جاتا ہے کیونکہ انھوں نے ایک بچے کے مقابل اپنا بڑا پن ثابت کیا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بچوں کے سامنے اپنے عقلِ کل ہونے کا بھرم کمزور نہیں ہونے دیتے خواہ انھیں اپنی کم علمی چھپانے کے لیے جھوٹ ہی بولنا پڑ جائے۔ آج کمپیوٹر کی مدد سے گوگل یا ایسے ہی واسطوں سے ہر قسم کی معلومات آپ کے اشارے پر حاضر ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بچوں کو بڑوں کی چنداں محتاجی نہیں رہی مگر آج بھی استاد اپنے آپ کو علم کا سر چشمہ مانتے ہیں۔

جب بچے کی بات کو سنا ہی نہیں جاتا اور کوئی اس کی رائے کو اہمیت ہی نہیں دیتا تو بچہ کیونکر اپنے بڑوں پر اعتبار کر سکتا ہے۔ حالانکہ جب بچہ کوئی رائے دیتا ہے تو وہ اپنے پاس میسر معلومات پر سوچ کر کوئی نئی توجیہہ بناتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ بات درست ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ بچے نے سوچااور اپنی حیثیت کے مطابق کوئی نتیجہ نکالا۔ کم از کم اس نے ایک عمل کی شروعات تو کی۔ اگر کوئی بڑا اپنے بڑے پن کے خبط کو کچھ دیر کے لیے لگام دے دے اور بچے نے جو کچھ کہا اس پر اپنی رائے دے اور اگر اس کو اپنے کلی طور پر درست ہونے کا یقین نہیں تو یہ بھی کہہ دے کہ وہ دونوں مل کر کسی مستند حوالے سے اس بات کی تصدیق کر لیں تو بچہ اس بڑے پر نہ صرف اعتبار کرے گا بلکہ ان کے درمیان ایک پر اعتماد رشتے کی گنجائش پیدا ہو جائے گی۔

ہمارے ہاں بچیوں کے سا تھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے بچیاں دنیا کو ایک نا پسندیدہ اور غیر محفوظ جگہ سمجھنا شروع کر دیتی ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ اس معاشرے میں عورت بن کر رہنا کس قدر مشکل ہے، اس کی ابتدا عورتوں کے بچپن سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ گھر میں اس کی پیدائش کو نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے میں اسے ایک جنسی آسودگی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بچی اور عورت کی تفریق ہر گز نہیں۔ چھوٹی بچی کے جسم کو مکمل عورت کے جسم کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں صورتوں میں وہ مرد کا شکار بن سکتی ہے۔

آپ بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر ان کو گلا گھونٹ کر ماردینے کے واقعات کو دیکھیں۔ جرم کرنے والا بچی کو پیار دلار کر کے اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ وہی پیا ر اور دلار جواسے گھر سے میسر نہیں ہوتا۔ یعنی یہ کہ جن گھروں میں بچیوں کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے ، ان کی بچیاں ایک ظلم یا استحصال کے لیے تیا ر ہوتی ہیں جوپیا راور دلار کے نام پر کیا جا سکتا ہے۔غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح جبر کے ماحول میں پیار اور دلار کے نام پر ایک بچی اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے لا شعوری طورپر تیار ہوتی ہیں اسی طرح ان پر ظلم کر نے والے مرد بھی انھی گھروں میں پروان چڑھتے ہیں جن کو ان کے لڑکا ہونے کا خصوصی درجہ اور اس درجے کی بدولت مخالف جنس پر چڑھ دوڑنے کا سماجی پر مٹ مل جاتا ہے۔

یہ وہ بچے تھے ؍ہیں جن کو ایک تجرید میں رکھتے ہوئے، ایک غیر فطری ماحول میں تربیت کی گئی۔ اس تربیت نے انھیں انسانوں سے نہیں جوڑا بلکہ انھیں ایک غیر سماجی اور غیر انسانی سطح پر بے حسّ سا بنا دیا۔ ایسے لوگ ایک قصائی کا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ کسی جانور کو اس کی زندگی یا خوبصورتی کے حوالے سے نہیں دیکھتے بلکہ اس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس میں سے کتنا گوشت نکل آئے گا۔ اسی طرح جس طرح دولت کے خبط میں مبتلا ڈاکٹر مریض کو اس کی تکلیف یا درد سے ہمدردی کی تناظر میں نہیں دیکھتے بلکہ ایک اکائی جس سے فیس لینی ہے کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔

سکول میں استاد بچوں کو اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھتے کہ بچے جس اعتبار کے ساتھ ان کے پاس آئے ہیں اس کو خلوص کی صورت میں لوٹا دیں۔ وہ بچوں کو ٹیوشن کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ جب بچے اپنی دنیا پر اعتبار کے قابل نہ بن سکیں تو وہ صرف غرض کے سطح پر جیتے ہیں۔ اس طرح پورا معاشرہ قصائیوں کا معاشرہ بن جاتا ہے۔ ہر فرد محض جیتا نہیں، وہ جیتے ہوئے بڑ ی خاموشی سے تشدد اور ظلم کر تا جاتا ہے ۔ تشدد روزمرہ کا ’ شغل ‘ بن جاتا ہے اور زندگی میں اسی طرح قابلِ قبول ہو جاتاہے جیسا کہ کوئی فرد ایک لباس اتار کر دوسرا لباس زیبِ تن کرلے۔

اگر والدین اپنے بچوں کی فطری صلاحییتوں پر اعتبار کریں تو بچے دراصل اپنے آپ پر اعتماد کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر تجسس اور سوال اٹھانا بچے کی فطری صلاحییتوں میں شامل ہیں۔ اگر ان صلاحییتوں پر اعتبار نہ کیا جائے اور بچہ جب بھی سوال اٹھائے ، اس کی بے عزتی کر دی جائے تو بچہ سوال کرنا ہی چھوڑ دے گا۔ اس کے بعد جب بھی اس کے ذہن میں سوال پیدا ہو گا تو وہ اسے غیر ضروری اور قابلِ گرفت عمل سمجھنے لگے گا۔اس طرح جب بچے کی فطری صلاحییتوں پر اعتبار نہ کیا گیا تو بصورتِ دیگر اس کے ہونے کی نفی کر دی گئی۔ 

اس کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ آپ ایک بچے کو جنگل میں جانوروں کے ساتھ پلنے دیں اور ایک کو فن لینڈ کے کسی سکول میں داخل کروا دیں۔ جانوروں کے ساتھ پلنے والا بچہ جانوروں کے طور طریقے سیکھ لے گا اور فن لینڈ والا بچہ ایک مہذب معاشرے کا چلن سیکھ لے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ بچے کو جنگل میں تو نہ بھیجیں البتہ اس کی تربیت اس طرح کریں کہ جیسے وہ ایک جانور ہو۔ ایسی صورتحال میں ادھورے انسان بنتے ہیں۔ انسان ہونے کا مطلب یہ کہ ہم میں دوسرے انسانوں کے احساسات کو اسی طرح محسوس کرنے کی صلاحیت ہو جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمارے احساسات کو محسوس کریں۔ یہ سب سیکھنا پڑتا ہے۔ ایسا سیکھنے کی صلاحیت فطری طور پر انسان کے اندر موجود ہوتی ہے۔ اب یہ ان حالات پر منحصر ہے کہ جس میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ اس کے والدین کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ، کلچر کیسا تھا اور عالمی حالات کیسے تھے۔ 

بچے ماں کے پیٹ میں ہوں یا نوزائیدہ، سب کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین پرغیر مشروط اعتماد کر سکیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو سکے تو ان کی حیاتیاتی اور نفسیاتی زندگی کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ اگرچہ بچے میں خطرات میں سے بچ نکلنے کی فطری قوّت اور طریقے موجود ہوتے ہیں تاہم اسے اپنی جسمانی اور نفسیاتی ضرورتوں کے پیشِ نظر ایک پیار بھرے اور خیال رکھنے والے ماحول کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے ۔ بچہ ، خواہ بہت چھوٹا ہو، یہ بتانے کی اہلیت رکھتا ہے کہ اسے بھوک لگی ہے یا اسے ماں کے جسمانی لمس کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ان دونوں چیزوں کو اپنے طور پر حاصل کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ان ضروریات کی فراہمی کے لیے ماں کو اس کے پاس آنا ہی ہوگا۔

بچے میں محض اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کا اشارہ دے۔ ان اشاروں کا جواب دینا یا نہ دینا ارد گرد کے لوگوں پر منحصر ہو تا ہے۔ بچوں کے اشارے مبہم اور بعض اوقات محض علامتی ہوتے ہیں اور ان کو سمجھنے کے لیے حساس والدین کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے بچے رو کر اپنی ضروریات کا اشارہ دیتے ہیں۔ جب وہ بڑے ہو جائیں تو وہ زبان کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ چھوٹے بچے جب روتے ہیں تو وہ توقع کرتے ہیں کہ ارد گرد کے لوگ اس پر کوئی ردِ عمل یا حرکت کریں ۔ اگر ایسا نہ ہو تو بچے اس عدم تائثر کی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ سمجھ نہیں پاتے کہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ 

والدین اور بچوں کے آپسی تعلقات میں آخر ایسی کونسی بات ضروری ہے جس کی بدولت بچے اپنے آپ پر اور اپنے ماحول پر اعتبار کرنا سیکھ جائیں۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہم ایک برطانوی سائیکاٹرسٹ جان بولبی(John Boulby) سے رجوع کرتے ہیں۔ انھیں اقوامِ متحدہ کے عالمی صحت کے ادارے نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد قائم ہونے والے یتیم خانوں کی بہبود پر تحقیق کرنے کا کام دیا تھا۔ انھیں اپنی تحقیق کے دوران یتیم بچوں میں ایک عجیب قسم کے رویے کا پتہ چلا۔ وہ یہ کہ ان یتیم خانوں میں پلنے والے بچے اپنے ارد گرد کسی بھی شخص کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس پر اعتبار کیا جائے۔ 

اسی تحقیق کی روشنی میں بالبی نے اپنا نظریہ برائے تعلق داری(Theory of Attachment) قائم کیا۔ سالہا سال کے کلینکل تجربات اور تحقیق کی بنیاد پر بالبی اس نتیجے پر پہنچا: ’’ ہر عمر کے لوگ ایسے حالات میں خوش رہتے جہاں ایسے لوگ موجود ہوں جن پر وہ اعتماد کر سکیں اور مشکل کے وقت ان کی طرف رجوع کر سکیں۔ ایسے حالات میں وہ اپنی صلاحییتوں کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ جو لوگ اعتبا ر کے اہل ہوتے ہیں وہ ایک محفوظ گوشہ فراہم کرتے ہیں‘‘۔

بالبی کے نزدیک تعلقداری دراصل ایک یا ایک سے زیادہ لوگوں کو ترجیحی حیثیت دینا ہے۔ اس ترجیح کی بدولت ایک خصو صی رویہ پیدا ہوتا ہے اور اس رویے کی بدولت ترجیح حاصل کرنے والے فرد سے قربت حاصل ہو جاتی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایسی قربت کی ضرورت صرف بچوں کو ہی ہوتی ہے۔ بلکہ ایسے رویے کو بچگانہ قرار دیا جاتا ہے۔ لگاؤ ایک قدرتی رجحان ہے اور کوئی بھی صحت مند فرد ایک دیرپا تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسی رجحان کی بدولت وہ ارد گرد کی دنیا کو بہتر طور پر جاننے کا اہل بنتا ہے۔ ایسے رجحان کو نفسیاتی عارضہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ جبکہ بصورتِ دیگر ایسے تعلق کے نہ ہونے کے باعث لوگوں میں ایسے عارضے کی مثالیں ضرور ملتی ہیں جن کے زیرِ اثر ان میں غیریت کے رجحان غالب آجاتے ہیں۔

یہ سب بچپن میں اعتباری رشتوں کی عدم دستیابی کے باعث ہوتا ہے۔ لگاؤ کے تجربات کی بدولت بچہ اپنے ارد گرد لوگوں اور ماحول کے ساتھ ایک اعتبار کا رشتہ قائم کرنے کا اہل ہو جاتا ہے۔ ان تجربات کی ابتدا اس کے والدین سے ہوتی ہے جو اسے سلامتی اور تحفظ کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اسی تحفظ کی وجہ سے بچہ اپنی صلاحییتوں کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے کر دریافت کا سفر شروع کرنے کا اہل بنتا ہے۔ دریافت کے اس سفر میں وہ دنیا کے کاروبار کو سمجھتاہے اور اپنی زندگی کا راستہ معین کر پاتا ہے۔

اپنی زندگی کے پہلے سال میں اگر سلامتی اور تحفظ کی فضا مل جائے تو پوری زندگی کے لیے خود اعتمادی کی اساس میسر آجاتی ہے۔ اس سے بچے کی نشوونما میں بہتری آتی ہے۔ وہ دنیا سے خائف نہیں ہوتابلکہ اسے ایک چیلنج سمجھتا ہے۔ خود اعتمادی رجائیت اور بے اعتباری مایوسی پیدا کرتی ہے۔ بچہ کس قدر اپنے والدین کھچا رہتا ہے یا ان سے دوری بنا ئے رکھتا ہے ، ان کے ساتھ تحفظ اور اعتماد کے تعلق کادرجہ معین کرتا ہے۔دوسری جانب جو بچہ اپنے والدین کے ساتھ تعلق محسوس کرتا ہے وہ ، ضروری نہیں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ چمٹا رہے۔ وہ ان کو چھوڑ کر اپنی زندگی کی دریافت کے سفر میں نکل جائے گا۔ گھر سے نکلتے وقت وہ اپنے ساتھ یہ یقین لے کر رخصت ہو گا کہ اگر اسے ضرورت پڑ گئی تو وہ بلا ججھک ان کے پاس لوٹ سکتا ہے ۔ایسے بچے اپنی دریافت کے سفر میں اپنی آسانی اور رفتار کے مطابق چلتے ہیں ۔ انھیں کسی قسم کے دباؤ یا کسی کے سامنے کچھ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

عموماً ، جن گھروں میں میاں اور بیوی کے درمیان خوشگوار تعلق نہ ہو وہاں بچے اعتماد اور احساسِ تحفظ حاصل نہیں کر پاتے۔ جب میا ں بیوی کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ہو تو اس کا اثر بچوں پر بھی آتا ہے۔ بچوں کی زندگی کا قلعہ ان کا گھر ہوتا ہے اور اس قلعے کے ستون ان کے ماں باپ ہو تے ہیں۔ جب بچوں کے والدین میں ان بن ہو تی ہے تو دراصل بچوں کا قلعہ ، قلعہ نہیں رہتا ۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو عدم تحفظ کی ایک دلدل میں ہاتھ پاؤں مارتا محسوس کرتے ہیں۔ 

اگر ہم بچے کے پہلے اعتبار کی کہانی کے بارے میں معلوم کر لیں تو ہمیں اس کی زندگی کے آنے والے سالوں میں مایوسیوں یا خوشیوں کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اس کا زندگی سے ملاقات کرنے کا نظریہ معلوم کر سکتے ہیں۔ پیدائش سے پہلے اور فوراً بعد بچہ مکمل طور پر اپنی ماں کے ساتھ بندھا ہو تا ہے۔ اس عرصے میں کوئی شخص اس کے اتنا قریب نہیں ہوتا۔ماں کے پیٹ میں بچے اور ماں کے درمیان کا رشتہ انتہائی قربت والا ہوتا ہے جو کسی بھی اور رشتے میں ممکن نہیں ہوتا۔ بچہ ، ماں کے جسم کا حصہ ہوتا ہے اور دھڑکن کی طرح ماں کے جسم میں بہتا ہے۔ پیدائش کے بعد ابتدائی مہینوں میں بچے کا اپنی ماں کے ساتھ ایک اٹو ٹ رشتہ ہوتا ہے۔ ماں اور بچے کے درمیان موانست کا تعلق بچے کی زندگی کے ابتدائی چھے سے آٹھ مہینوں تک برقرار رہتا ہے۔

اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ تعلق کم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بچے کو ایک الگ فرد ہونے کا تجربہ شروع ہو جاتا ہے ۔پیدائش کے بعدبچے کے ابتدائی مہینے دراصل اس کے ماں کے پیٹ میں موجودگی کی ہی توسیع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد بچہ تدریجاًآہستہ آہستہ اپنی ماں سے الگ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور پھر اس کی توجہ دوسرے لوگوں کی طرف مڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ابتدائی مہینوں میں بچہ سب سے زیادہ لگاؤ اپنی ماں کے ساتھ محسوس کرتا ہے۔ اگر باپ بچے کے ساتھ لگاؤ کا رشتہ استوار کرتا ہے تو اس کی حیثیت بہر کیف ماں کے بعد ہی آئے گی۔ باپ کی حیثیت صرف اسی وقت نمایاں ہوتی ہے جب بچے کی نفسیاتی زندگی کا آغاز ہو تا ہے۔ اس کے بعدکنبے کے دیگر لوگوں کی باری آتی ہے۔ ان میں بہن،بھائی، دادا،دادی، نانا، نانی شامل ہیں ۔

اگر بچے کی نگہداشت کا کام بہن یا بھائی کو سونپ دیا جائے تو وہ لگاؤ کی سیڑھیوں میں بچے کی قریب والی سیڑھی پر آجاتے ہیں۔ اگر بچے کی زندگی کے ابتدائی سال میں اس کی نفسیاتی زندگی شروع ہونے سے پہلے اسے کسی ’ عجیب و غریب ‘ اجنبی آیاکے سپرد کر دیا جائے تو بچے کا اس کی حقیقی ماں کے ساتھ رشتہ کبھی بھی قدرتی نہیں رہتا۔محض حیاتیاتی تعلق کی بنیاد پربچے کے ساتھ لگاؤ کواپنا حق سمجھ لینا درست بات نہیں۔ بچے کے ساتھ لگاؤ کو کمانا پڑتا ہے۔ اسی مناسبت سے جس قدر کوئی شخص بچے کے ساتھ تعلق بنائے گا اسی قدر بچہ اس کے ساتھ لگاؤ کی شدت محسوس کرے گا۔

یہ بھی کہ اس تعلق کی شدت کا پیمانہ بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا نہیں بلکہ لگاؤ میں سچائی یا بناوٹ کی کمی یا زیادتی ہے۔ اگر ماں بھی اپنے بچے کے ساتھ ہر وقت رہے مگر اس کے بچے کے ساتھ تعلق میں سرد مہری ہے تو اس کے مقابلے میں بچے سے دلی گرم جوشی رکھنے والی آیا بچے کے دل میں لگاؤ کا ایک گوشہ بنا لے گی۔ جاپانی مائیں اپنے شیر خوار بچوں کی ضروریات کا خیال تو رکھتی ہیں مگر وہ یہ سب بڑی خاموشی سے کرتی ہیں۔ اس طرح ان کے بچے اپنی زندگی میں کسی کی توجہ کے طالب بنے بغیر اپنی زندگیوں میں مست رہتے ہیں۔ 

اس کے بر عکس ، امریکی مائیں اپنے شیر خواروں کا خیال تو رکھتی ہیں مگر ان سے باتیں بھی کرتی رہتی ہیں۔ اس طرح ان کے بچے اپنی زندگیوں میں دوسروں کی توجہ کے طالب رہتے ہیں۔ انھی رویوں کی بدولت امریکی اور جاپانی کلچروں کی اساس کو سمجھا جاسکتا ہے۔

کیا بچے اپنے والدین پر اعتبار کرتے ہیں؟

Comments are closed.