پاکستان میں جھوٹ کی روایتی پالیسیاں

حیدر چنگیزی

مذہب اسلام میں جھوٹ بولنے کو عیب اور گناہ ہ تسلیم کیا جا تا ہے۔ جھوٹ سے مراد انفرادی مفاد کیلئے سچائی اور صداقت کو چھُپا کر واقعے اور حقیقت کے بر عکس واقعات بیان کرنا جس سے کسی اجتماع کو نقصان ہو ۔ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیکھا جائے تو جھوٹ ، آرام، سکون اور تسلی پہنچانے والی سب سستا آلہ ہے لیکن یہ آرام، سکون اور تسلی صرف عارضی طور پر ہوتا ہیں بعد میں جسکے نتائج نہایت ہی تباہ کن ہوتا ہے خصوصاََ وہ جھوٹ جو اجتماعی طور پر سماجی، سیاسی ، قومی مذہبی اور تاریخی حوالے سے بولا جائے، معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔

معاشرتی، تاریخی، قومی اور اجتماعی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو پاکستان و ہ واحد اسلامی ریاست ہے جو ہر لحاظ سے اجتماعی جھوٹ کا سہارا لیتا آرہا ہے اسی لئے پاکستان میں مفاد پرست قوتوں کی جانب سے جھوٹ کا اتنا بے دریغ استعمال کیا گیا کہ آج پاکستان کی بنیاد ہی کھوکھلی ہو چکی ہے۔چاہے وہ پاکستان کی لکھی یا چھاپی گئی تاریخ ہو یا بنائی گئی ریاستی پالیسیاں، کئے گئے وعدے ہو یا کہا ہوا بیانیہ ، سب جھوٹ پر مبنی ہیں اور ہم اس جھوٹ کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ آج اس جھوٹ نے ایک جھوٹ کی روایات کو جنم دیا ہے جسکے تباہ کن نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

پاکستان کی اصل تاریخ کو پڑھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ روز اول سے ہی جھوٹ کا سہارا لیکر مفاد پرست ریاستی قوتوں نے ہماری اصل تاریخ اور شناخت کو چھپُایا اور اپنے مقاصد کو حاصل کئے۔ اس کی واضح اور زندہ مثالیں

۔ا۔ ریاستی پالیسی کے تحت اسلامائزیشن پروسیس ہے جس میں مذہب کو انتہائی حد تک حاوی کر کے پاکستان میں موجود اقوام کی قومی، تاریخی، ثقافتی ، تہذیبی اور علاقائی و جغرافیائی شناخت کو چھُپا کر مذہب کے نام پر اقوام کو انُ کے حقوق سے دور رکھا گیا اور یہی تاثر دیا گیا کہ پاکستان میں تمام افراد کی شناخت صرف اور صرف مذہبی لحاظ سے ہے اور پاکستان کی جدوجہد صرف اور صرف مذہب کے نام پر ہی کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی نصاب میں محمد بن قاسم جیسے بد کردار شخص کو قومی ہیرو بنایا گیا ہے جسے اصل میں تاریخ ایک زانی، بد کار اور ظالم انسان کے طور پر بیان کرتا ہے جس نے نہ صرف راجا داہر کی بیوہ اور بیٹیوں سے زنا و بدکاری کی بلکہ اولاد و اہلبیتِ رسول سے تعلق رکھنے والے عظیم شخصیت، عبداللہ شاہ غازی کو بھی قتل کیا۔ 

۔۲۔ 1857 کی جنگِ آزادی میں ہمارا کردار مغلیہ سلطنت کے جانشینوں یعنی مغل بادشاہ بابر، ہمایوں، اورنگزیب ، جہانگیر اور بہادر شاہ ظفر کے جانشین اور اسلام کے محافظ کے طور پر کیا جاتا ہے حالانکہ تاریخ کو اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو یہ ایک علاقائی جنگ تھی جو مختلف مراحل میں وقت در وقت لڑی گئی جسے تاریخ میں بغاوتِ ہند تو کبھی اینگلوافغان وار جو کہ موجودہ پشاور، اینگلو سکھ وار جو کہ موجودہ پنجاب اور اینگلو مری وار جو کہ موجودہ بلوچستان میں لڑی گئی تھی ، کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 

۔۳۔ 1949میں قراردادِ مقاصد کو آئینی درجہ دیکر قائدِ اعظم کی سیکولر ریاست کے نظریے کا مکمل خاتمہ کیا گیا تاکہ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کو بھی پامال کیا جاسکے اور مولانا مودودی جیسے شخصیات کو پاکستان بنانے والوں میں شامل کیا گیا۔

۔۴۔ 1958 میں ون یونٹ سکیم کے تحت مزید پاکستان میں بسنے والے اقوام کو محرومی کا احساس دلاکر لاہور کو دارلحکومت بنایا گیا اور اسلام کے نام پر یکجا رکھنے کی سازش کے تحت مفادات کو حاصل کرنے کا عملی اقدام کیا گیا ، مشرقی پاکستان میں اسی اسلامائزیشن اور اسی جھوٹی و مکار ریاستی پالیسی کے تحت ریاستی جہادی تنظیمیں بناکر بھیجا گیا تاکہ ابھُر تی ہوئی بنگالی قوم پرستی کو مذہب کے تحفظ کے نام پر ناکام کیا جائے۔ یہ جھوٹ کا نظام زیادہ دیر نہ چل سکا اور نتیجتاً 1971 کو سقوطِ بنگال رونما ہوا لیکن پھر بھی ہماری ریاستی مفاد پرست ادارے اور مفاد پرست قوتیں انِ جھوٹ پر مبنی ریاستی پالیسیوں سے باز نہ آئے ۔

۔۵۔ اسلامائزیشن کے نام پر جھوٹی پالیسیاں تشکیل دی گئی جس کے تحت طالبان اور لشکرِ جھنگوی جیسے قاتل تنظیمیں بنائی گئی، حدود آرڈیننس کو متعارف کروایا گیا،کونسل آف اسلامک آئیڈیولوجی اور اسلامک بینکنگ جیسے پروگراموں کو فروغ دیا گیا، فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کو پھیلایا گیا، تعلیمی نصاب میں سے تاریخ کو منسوخ کر کے مطالعہ پاکستان کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ لازمی بھی قرار دیا گیا۔ 

ان تمام مفاد پرست ریاستی پالیسیوں کی سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ ان تمام پالیسیوں پر سوال اٹُھانے اور ان کو جھٹلانے پر تعزیرات پاکستان کے سیکشن 123 –اے کے تحت جرمانہ اور قید کا سزا رکھا گیا جس سے یہ جھوٹا اسلامائزیشن بڑھتا گیا اور ان جھوٹی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کی تخلیقی صلاحیت ختم ہوتی چلی گئی ۔ ان مکاراور مفاداتی ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کے لاکھوں معصوم اوربے گناہ افراد کا خون بہایا گیا اور ابھی تک بہایا جارہا ہے جس کا الزام کبھی بھارت تو کبھی افغانستان پر لگایا جاتا ہے اور ان ناکام پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو بھی کبھی بھارتی ایجنٹ تو کبھی افغانی ایجنٹ بنا کر اورغدارٹہراتے ہوئے اپنا جھوٹ چھُپایا جاتا ہے الغرضپاکستان وہ واحد اسلامی ریاست ہے جو اپنی مسلسل جھوٹی پالیسیوں کی وجہ سے آج تقسیم ہو کر حصُِوں میں بٹ چکا ہے۔

پاکستان کے برعکس اگر بھارت کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی ظاہر ہو جاتا ہے کہ آج بھارت پاکستان سے کتنے آگے ہے۔اس موازنے کا تذکرہ اس لئے بھی لازمی ہے کہ پاکستان اور بھارت نے ایک ساتھ ہی آزادی حاصل کی تھی ۔ چونکہ بھارت کی پالیسیاں سچائی اور صداقت پر مبنی ہے ؛ اس لئے بھارت نے نہ صرف جمہوریت برقرار رکھی بلکہ ہر طرح کی سقوط اور بغاوت سے بھی محفوظ رکھا۔ بھارت میں آج بھی کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں لیکن اس کے باوجود بھارت میں نہ تو کبھی ہندومت کو کبھی خطرہ محسوس ہوا، نہ عیسائیت کواور نہ ہی اسلام کو ۔ وہ آج بھی مذہبی انتہا پسندی سے میلوں دور ہے ۔

جبکہ پاکستان میں ابتداء سے ہی اسلام کی سا لمیت کوخطرہ لاحق ہے۔ بھارت 29 ریاستوں کے ساتھ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی ملک ہے جس میں بھوک و افلاس، تعلیم اور غربت کا شرح انتہائی زیادہ ہے لیکن آج بھی بھارت جمہوریت کا سب سے بڑا مثال ہے اور آج تک بھارت میں کبھی ڈکٹیٹرشپ کا خطرہ محسوس نہیں کیا گیا ہے۔

آج بھی بھارت میں780 سے زائد زبان بولی اور سمجھی جاتی ہیں لیکن اسکے باوجود آئین ہندوستان کی آرٹیکل 345, 343 کے تحت ہندی کے ساتھ ساتھ 22 اور زبانیں بھی بھارت کے قومی و سرکاری
زبانوں میں شامل ہیں جبکہ پاکستان میں اصل اور لوکل زبانوں کو رد کر کے اردُو کو ہی سرکاری اور قومی زبان کے طور پر تسلط کیا گیا ہے۔عرب کے محمد بن قاسم سے تقلید رکھنے والی ریاست کو آج تک اس بات کا اندازہ نہیں ہو سکا کہ عرب ، اسلام کا مرکز ہوتے ہوئے بھی آج 22 ملکوں میں تقسیم ہیں اور آج تک اس تقسیم کی وجہ سے اسلام کی سا لمیت کو کوئی خطرہ نہیں پہنچا لیکن چار صوبوں پر مشتمل ریاستِ پاکستان میں آباد اقوام کے اپنے علاقائی شناخت اور وسائلی حقوق مانگنے پر ہی کیوں ہمیشہ اسلام کی سا لمیت کو خطرہ پہنچتا ہے۔ ؟

یہی وہ تمام ریاستی پالیسیاں ہیں جنہیں صرف اور صرف جھوٹ کی بنیاد پر پیش کر کے ریاستی قوتیں اپنے مفاداتی مقاصد کو تکمیل کرتے آرہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان میں مسلسل بے چینی، خوف اور قتل و غارتگری عروج پر ہیں۔ آج بھی پاکستان میں انہی ریاستی پالیسیوں کے تحت روزانہ لاشیں گرائی جاتی ہیں اور عوام سے جھوٹ بول کر حقائق کو چھُپایا جاتا ہے ۔

بلوچستان میں متواتر بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ چلا آرہا ہے جس کی زد سے نہ تو پشتون محفوظ ہے نہ بلوچ اور نہ ہی ہزارہ۔ لیکن اس ریاستی پالیسی کی زیر سر پرستی اس قتل عام کا سب سے آسان اور متواترٹارگٹ ہزارہ کمیونٹی ہے جس کاقتل عام مسلسل 20 سالوں سے کیا جا رہا ہے اور ہر واقعے پر جھوٹ بول کر ریاست اور ریاستی ادارے اپنے مقاصد کے حصول میں سر گرم ر ہے ہیں۔ کبھی ایرانی سعودی پراکسی وار کے تحت اُنکا قتل عام کرایا گیا تو کبھی روسی امریکی جنگ کے تحت ، کبھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی قانونی حیثیت کو کمزور کرنے کیلئے تو کبھی اپنے احکامات اور من مانیاں پوری کرنے کی غرض سے، کبھی اقتصادی راہداری تو کبھی انتخابات میں جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کے غرض اور کبھی بلوچ علیحدہ پسند تحریکوں کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ۔

ان تمام مذموم مقاصد کے حصول کیلئے عوام سے فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی ، نسلی نفرت اور غیر ملکی دہشت گردی کے نام پر جھوٹ بولا گیا۔ کوئٹہ میں چار سے پانچ لاکھ کے قریب آباد ہزارہ کمیونٹی کی گذشتہ 20سالوں سے اتنی بے دردی سے قتل عام کیا جا رہا ہے کہ آج ہزارہ کمیونٹی کے بوڑھے، جوان، مائیں، بہنیں اور بچے تک یہ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں کہ خدا را ان ریاستی پالیسیوں اور ریاستی دہشت گردی سے ہمیں نجات دلایا جائے۔

اُن کا یہ کہنا ہے کہ انُ کے قتل عام میں صرف اور صرف ریاست اور ریاستی ادارے ملوث ہے اور گذشتہ چار دنوں سے ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مائیں اور بہنیں اسی مطالبے کو لیکر بھوک ہڑتا ل پر بیٹھی ہیں کہ یا تو ریاست اور ریاستی ادارے اپنی نااہلی اور ناکامی کو تسلیم کر کے دستبردار ہو جائے یا پھر تحفظ دینے کی یقین دہانی کرائیں اور ان تمام مکار اور مفاداتی ریاستی پالیسیوں کے تحت تشکیل دی گئی اس جھوٹ کی روایات کو ختم کر دیا جائے ۔

ریاست، ریاستی ادارے اور ان تمام لوگوں سے جو صدائے حق بلند کرنے والوں کوکو غدار کا لقب دیتے ہیں ، کویہ پیغام دیاجائے کہ پاکستان کی آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت ریاست ، قانون اور آئین کی اطاعت اور وفاداری کی پابند ی جس طرح سے ایک عام مہذب شہری پر عائد ہوتی ہے ، بالکل ٹھیک اُسی طرح ریاست پر بھی یہ پابندی عائد ہوتی ہے کہ آئین پاکستان کی آرٹیکل 3 اور4 ، جس میں شہریوں کے استحصال کے خاتمے کا ذمہ دار ریاست کو ٹھہرایا گیا ہے اور جس میں عوام کے جان و مال کی تحفظ ریاست کے ذمے کی گئی ہے۔

Comments are closed.