قومی دھارے میں شامل نہ ہونے والے صحافیوں پر کریک ڈاؤن شروع

پاکستانی چینل ’وقت نیوز‘ سے وابستہ گل بخاری کے اغوا کے واقعے نے پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب بہت سے صحافی کھل کر بات کرنے سے گریز کریں گے۔

باون سالہ گل بخاری کو پیر کی شب کچھ نامعلوم افراد نے اغوا کر لیا تھا ۔ انہیں کچھ گھنٹے تحویل میں رکھا گیا اور پھر  واپس ان کے گھر چھوڑ دیا گیا۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ بخاری کو کس نے اغوا کیا تھا۔ بخاری اپنی تحریروں میں پاکستان کی فوج کی جانب سے سیاست میں مداخلت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی بخاری پاکستان کے سابق وزیر اعظم  نواز شریف کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ بخاری کے اغوا کے ساتھ ہی ایک اور واقعہ پیش آیا جس میں صحافی اسد کھرل کو چند افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا۔

وقت نیوز سے وابستہ صحافی مطیع اللہ جان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’گل بخاری میرے ادارے کی تجزیہ کار ہیں، وقت نیوز  نے بھی اس واقعہ پر  تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہمیں ایسی معلومات ملی ہیں کہ بخاری کی جانب سے اب تک ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی‘‘۔

صحافی عافیہ سلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صحافیوں کو مار پیٹ یا پھر انہیں اغوا کر کے ان کو دبانے کی کوشش آزادی صحافت جو کہ پاکستانی آئین کاحصہ ہے، پر براہ رست حملہ ہے۔‘‘ سلام نے کہا کہ خوف کی ایک فضا  قائم کی جا رہی ہے اور اس صورتحال میں ایک جمہوری ریاست کام نہیں کر سکتی۔

  ملک کا  معتبر انگریزی اخبار ڈان بھی مبینہ طور پر اس سنسرشپ کا نشانہ بنا ہے۔ ڈان نے نواز شریف کا ایک انٹرویو شائع کیا تھا، جس میں شریف نے ممبئی حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کیس کا فیصلہ اب تک کیوں نہیں ہو سکا ؟ نواز شریف کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ دہشت گرد سرحد پار کس طرح کرجاتے ہیں؟ اس انٹرویو کے بعد ڈان اخبار کی اشاعت متاثر ہوئی ہے اور کئی علاقوں میں اس اخبار کی ترسیل پر پابندی عائد کر دی گئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ماضی میں جیو نیوز چینل کو بھی اقتصادی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

 اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے مطیع اللہ جان نے کہا، ’’میڈیا میں تنخواہوں اور اشتہاروں کے معاملے کا چیف جسٹس نےنوٹس تو لیا ہوا ہے لیکن اس نوٹس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ حکومتی اداروں کی طرف سے اشتہارات بند کر دیے گئے ہیں اور ادائیگیوں میں بھی وقت لگ رہا ہے۔ اس اقتصادی دباؤ کی وجہ سے کئی میڈیا گروپس میں تنخواہیں ادا نہیں کی جاسکی ہیں، میڈیا ممبران کے لیے سانس لینا بھی مشکل کر دیا  گیا ہے‘‘۔

اس ہفتے کے آغاز میں  ڈی جی آئی ایس پی آر آصف  غفور نے  ایک پریس کانفرنس کے دوران چند سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تصاویر دکھائی تھیں، جو پاکستان کے صحافیوں کے تھے۔ ان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان اکاؤنٹس سے ریاست مخالف افرد کی ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مطیع نے کہا، ’’ اتنے معتبر ادارے کی جانب سے ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پریس کانفرنس میں صحافیوں کو ریاست مخالف دکھایا گیا۔  پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)  نے اس کی مذمت کی ہے اور ان الزمات کو مسترد کر دیا  گیا ہے‘‘۔

پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پی ایف یو جےکی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’آئی ایس پی آر کے اس اقدام نے صحافیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘‘ مطیع  نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’صحافیوں کی تصاویر دکھانا غیر ذمہ دارانہ اقدام تھا۔  فوج کے ترجمان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو ریاست مخالف قرار دے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ عام افراد جان گئے ہیں کہ سیاسی کھیل  اب سیاسی جماعتوں کے درمیان نہیں رہا  بلکہ اس میں ادارے ملوث ہو گئے ہیں، ’’صحافیوں پر دباؤ ہے، پروگرام سنسر ہو جاتے ہیں اور اب تو سوشل میڈیا پر بھی کریک ڈاؤن کے آثار نظر آرہے ہیں‘‘۔

سلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’جب تک ریاست صحافیوں کی آواز کو دبانے کو کوشش کے خلاف ایک واضح پیغام نہیں دیتی تب تک بہت مشکل ہے کہ صحافی شفاف رپورٹنگ کر سکیں، وہ اسی خدشے میں رہیں گے کہ ان کی کسی رپورٹ سے اگر کوئی ناراض ہو گیا تو ان کی سکیورٹی کا کیا بنے گا‘‘۔

DW

Comments are closed.