خواجہ احمد عباس کی خود نوشت، میں جزیرہ نہیں ہوں

تبصرہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ

ایک وقت تھا جب بمبئی ( حالیہ ممبئی ) سے صرف دو ہفتہ وار اخبار ’بلٹز‘ اور’ کرنٹ ‘ شائع ہواکرتے تھے ۔ ان دونوں رسائل کے مالکان پارسی اور آپس میں رشتہ دار تھے ۔ اُ ن دنوں امریکہ اور سوویٹ یونین کے مابین سرد جنگ زورو ں پر تھی اور ’بلٹز‘ سوویت یونین کا زبردست حمایتی تھی جبکہ کرنٹ “ کا جھکاؤ مکمل طور پر امریکی کیمپ کی طرف تھا ۔

سوویٹ یونین کے ساتھ ساتھ ’بلٹز ‘ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی کی حمایت میں بھی سر بکف رہتا تھا ۔ جہاں تک سوویٹ یونین کی حمایت کا تعلق تھا تو اس کا سیاسی اور نظریاتی جوازموجود تھا لیکن شہنشاہ ایران کی حمایت کا کیا جواز اور مقصد تھا یہ اسرار آج تک نہیں کھل سکا ۔

یہ دونوں ہفت روزہ رسائل معروضیت کی بجائے بنے بنائے سیاسی و سماجی نظریات اورعقائد کے پرچارک تھے اور جہاں تک زمینی حقائق ومسائل کا تعلق تھا اس حوالے سے ان کا معیارپست تھا ۔ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا اور اخبار بینوں کے شعور اور بصیرت کی بدولت ان دونوں ہفت روز رسائل کو اپنا بوریا بستر گول کرنا پڑا اور بالا خر ان دونوں نے اپنی اشاعت موقوف کردی۔

اردو کے نامور کہانی نویس اورصحافی خواجہ احمد عباس’ بلٹز‘ سے وابستہ تھے ۔ وہ ’آخری صفحہ ‘ کے عنوان سے کالم لکھتے تھے جو بہت پاپولر تھا ۔ پہلے اپنا یہ کالم وہ ’بمبئی کرانیکل ‘ میں لکھا کرتے تھے لیکن جب وہ اخبار بند ہوگیا تو انھوں نے اسی نام سے’ بلٹز ‘میں لکھنا شروع کردیا ۔انھوں نے اپنا یہ کالم 1935میں لکھنا شروع کیا تھا اور اپنی وفات(1987) تک باقاعدگی سے لکھتے رہے ۔برصغیر کی صحافتی تاریخ میں ’آخری صفحہ ‘ سب سے طویل عرصے تک لکھا جانے والے کالم ہے ۔

خواجہ احمد عباس کی شخصیت کا کوئی ایک رخ یا ایک رنگ نہیں تھا وہ کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے ۔صحافت کے ساتھ ساتھ انھوں نے ناول، افسانے اور فلموں کی کہانیاں اورسکرپٹ بھی لکھے ۔وہ تین زبانوں،ہندی ، اردو اور انگریزی میں لکھ ، پڑھ اور بول سکتے تھے ۔وہ فلم پروڈیوسراورڈائیریکٹر کے طورپرکچھ زیادہ کامیاب نہیں تھے ۔ ماسوائے ان کی ایک فلم ’ انہونی ‘ کے جس میں نرگس اور راجکپور نے ہیرو اور ہیروئین کے رول ادا کئے تھے، ان کی بیس کے قریب فلموں نے بمشکل لاگت ہی پوری کی تھی ۔ان کی فلموں کی ناکامی کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی فلمیں معیاری نہیں ہوتی تھیں ۔ وہ فلم کی ٹکنیک کی بجائے فلم کے پیغام میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے ۔

خواجہ احمد عباس نے بالی وڈ کے ناموراداکارامیتا بھ بچن کو پہلی مرتبہ اپنی فلم ’ سات ہندوستانی ‘میں کاسٹ کیا تھا ۔’’ میں جزیرہ نہیں ہوں ‘‘ کے دیباچے میں امیتا بھ بچن نے لکھا ہے کہ کس طرح فلم کا پورا یونٹ مسافرٹرین کے تھرڈ کلاس ڈبے میں سفر کرکے شوٹنگ کے لئے گوا گیا تھا ۔فلم پروڈیوسرخواجہ احمد عباس کے پاس تھا یہی کچھ تھا اور اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے ۔ فلم یونٹ کا ہر رکن رات کو بجلی کے بغیر ایک سرکاری گیسٹ ہاؤ س کے فرش پر سوتا تھا ۔

خواجہ احمد عباس خود تو فلم میکنگ میں ناکام رہے لیکن انھوں نے دوسروں کی فلموں کے ایسے شاندار سکرپٹ لکھے جن کی بدولت انھوں نے دولت کا انبار جمع کرلیا ۔انھوں نے جن ہندی فلموں کے سکرپٹ لکھے ان کا شمار بہترین فلموں میں ہوتا ہے ۔راج کپور کی ’آوارہ‘،’شری 420 ‘ ،’جاگتے رہو‘اور ’بوبی ‘ ایسی فلمیں ہیں جنھیں فلم بین آج بھی یاد کرتے ہیں ۔

خواجہ احمد عباس کی لکھی ہوئی کہانیوں اور سکرپٹس کی بدولت کروڑ پتی بننے والے راج کپور اپنے سٹاف کو معاوضہ دینے کی معاملے میں خاصے بدنام تھے ۔یہی وجہ ہے کہ خواجہ صاحب کو ’بلٹز‘ میں کالم لکھنے کے عوض جو پندر ہ سو روپے ماہوار ملتے اسی میں وہ گذارہ کرتے تھے ۔

خواجہ احمد عباس نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز دیوکا رانی اور ان کے شوہر کی ملکیت پروڈکشن ہاؤس’ بمبئی ٹاکیز‘سے 1936میں کیا تھا ۔خواجہ احمد عباس کو بطورڈائیر یکٹردس سال بعد اس وقت شہرت ملی جب انھوں نے ’دھرتی کے لال ‘ فلم ڈائیریکٹ کی تھی ۔اس فلم کی کہانی 1943 میں بنگال میں آنے والے قحط کے پس منظر میں لکھی گئی تھی ۔ان کی ایک اور فلم ’ راہی ‘ جو ملک راج آنند کی ایک کہانی سے ماخوذ تھی، چائے کے باغات میں کام کرنے والے اور والیوں کے شب و روز کے بارے میں تھی ۔

ایسی فلمیں بنانا ان کا شوق تھا اور اپنا یہ شوق نفع نقصان کی پرواہ کئے بغیر وہ ساری عمر پورا کرتے رہے ۔’راہی‘ میں ان کے ہیرو دیو آنند تھے جو اس وقت تک ابھی سٹار نہیں بنے تھے لیکن خواجہ صاحب کہتے ہیں کہ فلم کی تکمیل کے دوران سب سے زیادہ اسی نے انھیں تنگ کیا تھا ۔ خواجہ احمد عباس نے بھارت اور سوویٹ یونین کے اشتراک سے ایک فلم ’ پردیس‘ بھی بنائی جس میں ہندوستانی اور سوویٹ اداکاروں نے کام کیا تھا لیکن یہ فلم بوجوہ باکس آفس پر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی ۔

خواجہ احمد عباس نے شعوری طور پر کمرشل فلمیں بنائیں اور جب کبھی ان کا بجٹ انھیں اجازت دیتا تووہ بڑے سٹارز کو بھی جو ان کے ساتھ کام کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اپنی فلموں میں کاسٹ کر لیا کرتے تھے۔ وہ اُ س دور میں ہندوستانی فلم انڈسٹری میں بائیں بازو کی ایک مضبوط اور موثر آواز تھے ۔

بلٹز‘ میں چھپنے والے ان کےآخری کالموں میں سے ایک کالم میں ،جو انھوں نے اس وقت لکھا جب وہ شدید علیل اور قریب المرگ تھے، کہتے ہیں’’ میری پروڈیوس کی ہوئی کوئی بھی فلم دیکھیں، آپ کی مجھ سے ملاقات ہوجائیگی ‘‘۔

میں جزیرہ نہیں ہوں ‘ ایک ایسی خود نوشت ہے جو تجسس سے بھرپور ہے ۔یہ اس کا دوسرا ایڈیشن ہے ۔ قبل ازیں یہ کوئی تیس سال قبل شائع ہوئی تھی ۔اس ایڈیشن کو سریش کوہلی نے ایڈٹ کیا ہے جنھیں خواجہ احمد عباس سے بہت زیادہ قربت حاصل رہی ہے ۔کتاب ابھی بھی بہت زیادہ طوالت کا شکار ہے ۔

خواجہ احمد عباس نے اپنی کہانی کا آغاز ظہور اسلام کے وقت مدینہ سے کیا ہے ۔ خواجہ احمد عباس پانی پت میں خواجہ الطاف حسین حالی کے خاندان میں پیدا ہوئے ۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور تقسیم کے وقت جب ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد نقل مکانی کرکے پاکستان چلے گئے تھے انھوں نے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جانے سے انکار کردیا تھا ۔ 

کتاب کو ایک اچھے ناشر کی ضرورت تھی ۔ایک معروف شخصیت کی سوانح بغیر اشاریہ کے نہیں چھاپی جاسکتی ۔ خواجہ احمد عباس کی خود نوشت کی بابت یہ اہتمام نہیں کیا گیا ۔اگر کتاب میں ان فلموں کی فہرست بھی شامل کردی جاتی جن کے ساتھ خواجہ احمد عباس کسی نہ کسی حیثیت سے وابستہ رہے تھے تو زیادہ بہتر اور مفید ہوتا ۔

Comments are closed.